سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(219) بولی والی کمیٹی کا شرعی حکم

  • 11435
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-18
  • مشاہدات : 3207

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

منکیرہ سے پروفیسر مجتبیٰ سعیدی لکھتے ہیں۔کہ چند آدمی مل کر کمیٹی ڈالتے ہیں پھر ایک مقررہ تاریخ پراس جمع شدہ رقم کی بولی لگائی جاتی ہے۔جو ممبر سب سے کم بولی لگائے اسے  جمع شدہ کمیٹی کی رقم دے دی جاتی ہے۔باقی ماندہ  رقم تمام ممبران آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں اس بولی والی کمیٹی کا شرعاً کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کمیٹی سسٹم کی بعض صورتیں امداد باہمی کازریعہ ہیں مثلاً چند احباب مل کر اپنی اپنی تھوڑی تھوڑی  پس انداز رقم کو  ماہ بماہ کسی کے پاس جمع کرتے رہتے ہیں۔ پھر ہر مہینے سے پہلے طے شدہ پروگرام یاقرعہ اندازی کے زریعے تمام جمع شدہ ممبران میں سے کوئی ایک لے لیتا ہے۔جسے رقم مل جاتی ہے اس کا نام آئندہ طے شدہ  پروگرام یا قرعہ اندازی میں شامل نہیں کیا جاتا البتہ اپنی  پس انداز رقم ہر ماہ ادا کرتا رہتاہے۔ اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔کیوں کہ یہ ایک کاروبار ہے۔امدادباہمی کازریعہ نہیں ہے۔ اور اس کاروبار کی بنیاد ناجائز زرائع سے مال کھانے پر ہے جس کی حرمت اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان فرمائی ہے:'' اے ایمان والو!  آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگر یہ کہ کوئی مال باہمی رضا مندانہ  تجارت کی  راہ سے حاصل ہوجائے۔''(4/النساء :29)

باطل طریقوں سے مراد وہ تمام  طریقے ہیں جو خلاف حق ہوں اور شرعاً واخلاقاًجائز ہوں آپس کی رضامندی سے مراد حقیقی باہمی رضا مندی ہے اور یہ اس وقت حاصل ہوتی ہے جس میں ناجائز دباؤ اور فریب دوغانہ ہو رشوت اور سودمیں بظاہر رضا مندی ہوتی ہے لیکن یہ رضا مندی مجبورانہ ہے اور دباؤ کا نتیجہ ہوتی ہے۔صورت مسئولہ اس لئے ناجائز ہے کہ نقد تھوڑی رقم وصول کرکے آئندہ زیادہ رقم ادا کرنا ہے سود بھی یہی ہے  کہ آدمی تھوڑی ر قم نقد وصول کرکے آئندہ معین مدت پرزیادہ رقم ادا کرتا ہے اگرچہ یہ لین دین باہمی رضا مندی سے  ہوتاہے۔لیکن ا س کی بنیاد''اكل المال بالباطل'' پر ہے۔ چونکہ یہ ایک کاروبار ہے۔اور کاروبار میں جب کرنسی کا تبادلہ ہوتا ہے تو مساویانہ طور پر ہوناچاہیے کم وبیشی کے ساتھ ایک ہی جنس کاتبادلہ شرعاً حرام ہے جس کی حرمت صریح اورواضح نصوص سے ثابت ہے۔ لہذا اس قسم کے کاروبار سے اجتناب کرنا چاہیے در اصل رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان کا مصداق حقیقت کاروپ دھارکر ہمارے سامنے آرہا ہے۔حدیث میں ہے کہ ''میری امت  پر ایک وقت آئے گا کہ لوگوں کے درمیان حلال وحرام کی تمیز اٹھ جائے گی۔انسان بڑی لا پروائی اور ڈھٹائی کے ساتھ حرام مال کھانے کی جراءت کرے گا۔''(صحیح البخاری : کتاب البیوع)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بھی فرمایا:'' کہ ایک وقت آئے گا کہ لوگ سود خواری میں مبتلا ہوں گے۔''عرض کیا گیا کہ سب لوگ اس میں مبتلا ہوں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا؛''جو بچنے کی کوشش کریں گے انھیں بھی سود کی گردوغبار اوردھواں پہنچے گا۔''(مسند امام احمد)اللہ  ہمیں اس سے محفوظ رکھے ۔آمین

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:243

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ