السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اب خریداری کی وضاحت پیش خدمت ہے۔کہ بعض اوقات ہمارے پاس بیو پاری آتے ہیں ان کے پاس مال کے نمونےہوتے ہیں۔فریقین باہمی رضا مندی سے ریٹ طے کرلیتے ہیں۔ہمیں علم ہوتا ہے کہ یہ سودا مہنگا ہے۔ کیوں کہ ادھا رلےرہے ہیں لیکن باہمی رضا مندی سے یہ طے کرلیاجاتاہے۔کہ ہفتہ وار کل رقم کا 4/ ایا8/1 ادا ہوگا اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس معاملہ کی دو صورتیں ممکن ہیں۔پہلی یہ کہ جب سودا ہورہا تھا فروخت کار کے پاس مال موجود تھا اگرچہ اس کے سٹور میں ہو۔وہ معاملہ طے ہونے کے بعد مال مہیا کردیتاہے۔اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ معاملہ طے کرتے وقت اس کے پاس صرف نمونہ ہی تھا اس کے پاس مال موجودنہ تھا اس نے آگے کسی سے خرید کریا خود تیار کرکے مال مہیا کرنا ہے۔یہ صور ت ناجائز ہے۔کیوں کہ کسی کو ایسی چیز فروخت کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ جو سودا طے کرتے وقت اس کی ملکیت نہ ہو یا وہ اس وقت مہیا کرنے کی پوزیشن میں نہ نہ ہو۔ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''کہ ایسی چیز مت فروخت کرو جو تمہارے پاس نہیں ہے۔'' یہ حکم امتناعی اس وقت جاری فرمایا جب حضرت حکیم بن حزام رضی ا للہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ایک آدمی آتا ہے۔ اور و ہ مجھ سے ایسی چیز طلب کرتا ہے۔جو میرے پاس نہیں میں سودا طے کرنے کے بعد بازار سے خریدکر اسے مہیا کرتا ہوں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔(ابودائود البیوع 3503)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب