السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علمائے کرام اس مسجد کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ جس میں ایک یا زیادہ فبریں ہوں ،کیا اس میں نماز پڑھنی جائز ہے ۔کیا اس میں فرق ہے کہ قبر نمازی کے آگے یا پیچھے یا پہلوں میں ہو ،کتاب و سنت اجماع امت او راعتبار صحیح کے ساتھ ہمیں فتویٰ دیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہم پہلے کے لیے امام المفتین محمد ﷺکا فتویٰ ذکر کر کے بعد تائید و وضاحت کے لیے ائمہ اربعہ کے فتاویٰ ذکر کریں گے ۔ ہم کہتے ہیں او راللہ تعالی سے صحیح بات کہنے کے لیے مدد چاہتے ہیں ۔
ابن ابی شیبہ مصنف (2؍83)میں امام مالک مؤطا (1؍276)میں روایت لاتے ہیں حارث نجرانی سے وہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا نبی ﷺسے موت سے پانچ دن پہلے آپ ﷺ فرما رہے تھے :
’’خبر دار جو لوگ ہم سے پہلے تھے انہوں نے اپنے انبیاء او رصالحین کی قبروں پر مساجد بنا رکھی تھیں ۔ خبردار قبروں کو مساجد مت بناؤمیں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں ‘‘۔
او رسند اس کی صحیح ہے او ریہ حدیث مختلف طرق سے متعد سندوں کے ساتھ وارد ہے جو پندرہ تک پہنچتی ہیں ۔ یہ عائشہ ،اسامہ ،جندب ،ابوھریرۃ،ابن عباس، ابو عبیدہ بن الجراح،زید بن ثابت ،ابن مسعود ،علی ین ابی طالب او رامھات المؤمنین سے ثابت ہے ،بخاری (1؍422)،مسلم (2؍67) ،نسائی (1؍115) ،دارمی (1؍326) ،احمد (1؍218)،عبدالرزاق (1؍406)بیہقی (4؍80) شرح السنہ للبغوی (2؍415)حیسے کہ اس کی تحقیق احکام جنائز او رتحذیر المساجد عن اتخاذ القبور مساجد میں ہے ،یہ حدیث قبروں پر مساجد بنانے کی حرمت پردلالت کرتی ہے ہم جب قبر کو مسجد میں داخل کروگے تو اس وعید کے مستحق بنو گے ،او رنہی تحریم کے لیے ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں :’’او رجس سے روکے رک جاؤ،(خشر:7)کیا اس فعل شنیع میں یہودو نصاریٰ او رمشرکین کی مشابہت کرنی کسی کے لیے حلال ہے ؟نبی ﷺنے یہ بات امت کو ڈرانے کے لیے کہی جیسے عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں ،’’ان کے کرتوت سے بچاتے تھے ‘‘مسلمان جو اپنے نبی ﷺپر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے یہ احادیث کفایت کرتی ہیں ۔
لیکن ہم علماء کے فتوے بھی بصیرت میں اضافے کے لیے لکھتے ہیں ۔
(1)حنفیہ:کہتے ہیں قبور کے پاس مکروہ تحریمی ہے ۔
امام محمد نے اپنی کتاب الاثار (45)میں صراحتا کہا ہے :
’’قبرکے علاوہ اس پر مزید اضافہ ہم درست نہیں سمجھتے او ر قبر پکی بنانا اس کی لیپاپوتی او ر اس کے پاس مسجد بنانا ہم مکروہ سمجھتے ہیں ‘‘۔ حنفیوں میں علامہ ابن مالک کہتے ہیں :
’’اس پر مسجد بنانا حرام ہے کیونکہ اس میں نماز پڑھنا یہودیوں کی سنت پر عمل کرنا ہے ۔
علی القاری نے مرقاۃ (1؍470)میں نقل کرکے اسے ثابت رکھا ہے ،کتب حنفیہ میں سے شرعۃ الاسلام (ص:569)میں ہے: ’’قبر پر مسجد تعمیر کرنا مکروہ ہے جس میں نماز پڑھی جائے ‘‘۔
الکوکب الدری(1؍153)میں ہے :’’قبروں پر بنی ہوئی مسجدوں میں نماز پڑھنا مکروہ ہے خواہ قبر سامنے ہو یا پیچھے ہو یا ایک جانب ہو لیکن قبر کی طرف منہ کرنے میں کراھت اشد ہے ،‘‘ تلخیص کے ساتھ ۔
او راسی طرح الطحاوی علی مراقی الفلاح :(ص:208)میں ہے :’’او رکہا گیا ہے کہ بتوں کی عبادت کی بنیاد نیک لوگوں کی قبروں پر مسجد بنانا ہے ..... الخ۔ اسی طرح فتاویٰ دیوبند: (1؍254)میں ہے مراجعہ کریں عینی شرح المخاری (4؍149)روالمختار المعروف بالشامی ، (1؍254)میں ہے :’’او رکہا گیا ہے کہ بتوں کی عبادت کی بنیاد نیک لوگوں کی قبروں پر مسجدیں بنانا ہے .....الخ ۔ اسی طرح فتاویٰ دیو بند:(1؍92) تفسیرآلوسی:(15؍231)۔
(2)شافعیہ : الخ ۔کہتے ہیں قبروں پر مسجدیں بنانی او راس میں نماز پڑھنی کبیرہ گناھوں میں سے ہیں ۔
ابن حجر الھیثمی نے الزواجر عن اقتراف الکبائر :(1؍120)جو بڑی مفید کتاب ہے میں صراحتا کہا ہے ،’’ قبروں پر مسجدیں بنانا کبیرہ گناہ ہے او رشرک کا سبب ہے یہ مکروہ نہیں حرام ہے ۔‘‘ (الخیص کے ساتھ)۔
امام شافعی نے خود کتاب الأم : (1؍246)میں ہے کہ ’’میں قبر پر مسجد بنانے کو مکروہ سمجھتا ہوں او راسی طرح اس پر نمازپڑھنا یا نیت کرنا یا اس کی طرف نماز پڑھنا بھی کیونکہ اس میں فتنہ او رگمراھی ہے ‘‘(الخیص کے ساتھ )۔
حافظ عراقی کہتے ہیں اگر کوئی مسجد تعمیر کرے او راس کے حصے میں دفن ہونے کا قصد کرے تو وہ لعنت میں داخل ہے بلکہ مسجد میں دفن ہونا حرام ہے اگر دفن ہونے کی شرط لگائی ہے تو وہ شرط صحیح نہیں مسجد کے وقف کی مخالفت کی وجہ سے ‘‘،
یہ نقل کیا ہے مناری نے فیض القدیر (5؍274)میں ۔
(3)مالکیہ : کہتے ہیں یہ حرام ہے ۔
امام قرطبی نے اپنی تفسیر :(1؍38)میں صؤاحتا کہا ہے کہ ہمارے علماء نے کہا ہے یہ حرام ہے مسلمانوں پر کہ وہ انبیاء او رعلماء کی قبروں پر مساجد تعمیر کریں ۔
(4)حنابلہ :کہتے ہیں ایسی مساجد میں نمازیں پڑھنا حرام بلکہ باطل ہے ۔
امام ابن قیم نے زادالمعاد :(3؍22)میں تصریح کی ہے :
اور ان میں سے معصیت والی جگہوں کو جلانا او رمنھدم کرنا ہے جہاں اللہ او راس کے رسول کی نافرمانی ہوتی ہو جیسے رسول اللہ ﷺنے مسجد ضرار جلائی او راسے منھدم کرنے کا حکم دیا ۔ وہ مسجد جس میں نماز پڑھی جاتی ہے او راللہ کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن اس کی تعمیر مومنوں کو نقصان پہنچانے ،ان میں تفرقہ بازی ڈالنے کے لیے تھی او ر وہ منافقین کا ٹھکانا تھا او روہ جگہ جو اس قسم کی ہو تو حاکم کو چاہیے کہ اسے معطل کرے اسے جلائے یا منھدم کرے یا اس کی صورت بدل دے تا کہ جس کام کے لیے بنائی گئی ہے اس کام کی نہ رہے ،مسجد ضرار کی یہ حالت تھی تو شرک کے اڈے جس کے مجاور اس میں مدفون لوگوں کا شریک بنانے کی دعوت دیتے ہیں جلانے او رمنھدم کرنے کے زیادہ حقدار ہیں ۔پھر کہا اس بنا پر وہ مسجدجو قبر پر بنائی گئی ہے منھدم کردی جائے ،اسی طرح اگر مسجد میں کسی میت کو دفن کر دیا جائے تو اسے نکال دیا جائے امام احمد نے اس پر نص کی ہے ۔
دین اسلام میں مسجد او رقبر جمع نہیں ہو سکتے اور ان جو بھی دوسرے پر بنائی تو اس کو روکا جائے گا ۔ او رحکم پہلے سے جو موجود ہو اسی کا ہو گا ،اگر دونوں اکٹھی بیک بنائی جا رہی ہوں تو جائز نہیں او ریہ وقف صحیح نہیں او رایسی مسجد میں جائز او ردرست نہیں ۔رسول اللہ ﷺکی نہی کی وجہ سے او رجو یہ کلام کرے اس پرلعنت کرنے کی وجہ سے ،یہ دین اسلام ہے جس کے ساتھ اللع تعالی نے اپنے نبی او ررسول کو مبعوث فرمایا او رلوگوں میں اس کا انوکھا پن آپ دیکھ رہے ہیں ‘‘۔ انتھیٰ
شیخ ا لا سلام امام ابن تیمیہ اس مسئلے کے بابت اپنے فتوے (1؍107)،(2؍196)میں عجیب باتیں ذکر کرتے ہیں ۔ اور مجمو عۃ الفتاویٰ (27؍140۔141) میں کہا ہے :
’’ایسی مساجد میں نماز پڑھنا بلا شک حرام ہے او رباطل ہیں این میں قرض یانفل کچھ بھی جائز نہیں ‘‘۔ مراجعہ کریں ابن عروہ حنبلی کی الکوکب الدری (2؍ن244)،امام ابن تیمیہ کی الا ختیار ات العلمیہ :(ص:52)،شرح المنتھی (1؍353)
ہماری ذکر کردہ نقول صحیحہ سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ قبر وں پر مسجدیں بنانا او رقبروں کو مسجدوں میں داخل کرنا جائز نہیں ایسی مسجدوں میں نمازیں پڑھنی جائز نہیں کیونکہ یہ مشرکوں کی مشابہت ہے ۔ جیسے نبی ﷺنے سورج کے طلوع و غروب ہوتے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس میں مشرکین کی مشابہت تھی ہم اس فتوے میں نقول او راحادیث کے ذکر کرنے میں اختصار سے کام لیا ہے کیونکہ انصاف پسند مسلمان کے لیے اسی قدر کافی ہے او ربھائیوں کو مذکورہ کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں خصوصا ً شیخ البانی کی تحذیر المساجد عن اتخاذ القبور ‘‘ مساجد۔
اور شیخ عثیمین نے مجموعہ (2؍119)میں قبر رسول ﷺکے چار جواب دئیے ہیں ۔
اول : مسجد نبوی قبر پر تعمیر نہیں ہوئی بلکہ نبی ﷺکی زندگی میں تعمیر ہو چکی تھی ۔
دوم : بنی ﷺمسجد میں دفن نہیں ہوئے کہ کوئی کہے یہ صالحین کا مسجد میں دفن ہونا ہے بلکہ آپ اپنے گھر میں دفن ہوئے تھے ۔
سوم: رسول اللہ ﷺکے گھر وں کا سمیت عائشہ رضی اللہ عنھا کے حجرے کے مسجد سے شامل کیا حاتا ، صحابہ کے اتفاق سے نہیں تھا بلکہ 94ھ میں اکثر ان میں سے بکھر گے تھے تو یہ کام صحابہ کی اجازت سے نہیں ہوا ،بکہ بعض نے مخالفت بھی کی جن میں سعد بن مسیب بھی ہیں ۔
چہارم : داخل کئے جانے کے بعد بھی قبر مسجد میں نہیں کیونکہ قبر مسجد سے مستقل حجرے میں ہے تو مسجد قبر پر نہیں بنی ،اسی لیے اس جگہ کو محفوظ کر دیا گیا ہے او راسے تین دیواروں کی مثلث سے اس طرح گھیر دیا گیا ہے کہ دیوار قبلے سے منحرف ہے او ر شمالی کو نہ کچھ اس طرح ہے کہ نماز پڑھنے کا منہ اس طرف نہیں ہوتا ،کیونکہ وہ قبلہ سے منحرف ہے اس لحاظ سے قبوریوں کا اس شبہ سے حجت پکڑنا باطل ہے ۔الخ .وبا للہ التوفیق
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب