سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(341) کیا رشتہ داروں کے انتظار کی وجہ سے تدفین میں تاخیر جائز ہے؟

  • 1142
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1930

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دور دراز کے مقامات سے بعض رشتہ داروں کے آنے کی وجہ سے میت کے دفن میں تاخیر کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

حکم شریعت یہ ہے کہ میت کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں جلدی کی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے:

«أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ فَإِنْ تَکُ صَالِحَةً فَخَيْرٌ تُقَد ِّمُونَهَا اليه وَإِنْ تکُ سِوَی ذَلِکَ فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِکُمْ»(صحيح البخاري، باب السرعة فی الجنازة، ح:۱۳۱۵، وصحيح مسلم، الجنائز، باب السرعة فی الجنازة، ح: ۹۴۴)

’’جنازہ میں جلدی کرو۔ میت اگر نیک ہے تو تم اسے خیر کی طرف لے جا رہے ہو اور میت اگر اس کے سوا کچھ اور ہے تو تم شر کو اپنی گردنوں سے اتار رہے ہو۔‘‘

بعض اہل خانہ کی حاضری کی وجہ سے میت کی تدفین میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، البتہ چند گھنٹے انتظار کیا جا سکتا ہے ورنہ افضل یہی ہے کہ اس کی تدفین جلد عمل میں لائی جائے۔ اہل خانہ اگر تاخیر سے پہنچیں تو ان کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھ لیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسجد میں جھاڑو دینے والے اس مرد یا عورت کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی تھی، جسے دفن کر دیا گیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس کے بارے میں اطلاع نہیں دی گئی تھی تو آپ نے فرمایا:

«دُلُّوْنِی عَلٰی قَبْرِهِ» (صحيح البخاري، الجنائز، باب الصلاة علی القبر بعد ما يدفن، ح: ۱۳۳۷، وصحيح مسلم، الجنائز، باب الصلاة علی القبر، ح: ۹۵۶ واللفظ له)

’’مجھے اس کی قبر بتاؤ۔‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے آپ کو بتایا تو آپؐ نے اس کی نماز جنازہ اس کی قبرپر جاکر ادافرمائی۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ332

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ