سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(211) ادھار زیادہ نفع لینا

  • 11413
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1059

سوال

(211) ادھار زیادہ نفع لینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم سے  گاہک نے مال دیکھا اور ریٹ طے کیا ہمیں پتہ ہے کہ یہ گاہک ادھار رقم کی ادائیگی پر مال خریدے گا اس بنا پر ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ادھار لینے والے گاہک سے عام گاہک کی نسبت زیادہ نفع کمایا جائے کیا ایسا کرناشرعاً جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسا کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔کیوں کہ فروخت کار کو شریعت نے یہ اختیار دیا ہے کہ اپنی چیز کی جو چاہے قیمت لگائے یہی وجہ ہے کہ کسی چیز ک بھاؤ متعین کردینا شرعاً جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے فروخت کار کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ اہل مدینہ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیا کہ آپ اشیاء کا بھاؤ متعین کردیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:''کہ اللہ تعالیٰ ہی ان اشیاء کا خالق اور ان کے اتار چڑھاؤ کا مالک ہے۔نیز وہ تمام  مخلوق کا رازق بھی ہے۔ میں یہ نہیں چالتا کہ قیامت کے دن میرے زمے کسی کا کوئی حق ہو۔''(مسند امام احمد :3/156)

اس حدیث کے پیش نظر اشیاء کی قیمتیں توفیقی نہیں کہ ان میں کمی بیشی نہ ہوسکتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ریٹ طے کرنے کا اختیار فروخت کار کو دیا ہے۔چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک عنوان بایں الفاظ زکر کیا ہے۔''چیز کا مالک بھاؤ لگانے کا زیادہ حق دار ہے۔''پھر آپ نے اس حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ جس میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بنو نجار کو کہا تھا کہ اس احاطہ کابھاؤ لگاؤ جس میں کھنڈرات اور کھجوریں وغیرہ تھیں۔ اور آپ مسجد تعمیر کرنا چاہتے تھے۔(صحیح بخاری البیوع 2106)

پھر نقد اور ادھا ر کی قیمت کی مالیت میں نمایاں فرق ہے۔ شریعت نے اس فرق کو برقراررکھا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ  سے فرمایا تھا:'' کہ وہ  ایک لشکر ترتیب دیں اور اس کے لئے لوگوں سے حاضر اونٹ اس شرط پر خرید لیں کہ جب زکواۃ کے اونٹ آئیں گے توایک اونٹ کے عوض دو اونٹ دیئے جایئں گے۔''(مستدرک حاکم البیوع 2340)

لہذا  فروخت کار کا حق ہے۔کہ ادھا لے جانے والے سے  اگر چاہے تو عام گاہک سے اپنے مال کی زیادہ قیمت وصول کرے اس میں بظاہر شرعا کوئی قباحت نہیں ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:239

تبصرے