السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عرصہ ہوا محترم شیخ محمد سعید ملتانی نے اپنے کاروبار کے متعلق لکھا تھا کہ میں کپڑے کا کاروبارکرتا ہوں ہمارا کاروبار خریدوفروخت میں نقد اور ادھار پر منحصر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں چند ایک سوالات ہیں۔ جن کی وضاحت درکا رہے آج بھی اس وضاحت کی ضرورت محسوس کیجاتی ہے اس بنا پر یہ سوالات مع جوابات پیش خدمت ہیں:
٭ ہمارے پاس گاہگ آیا اس نے ہم سے ریٹ پوچھا اور نقد رقم کی ادائیگی پر ہم سے مال لیا اور چلا گیا اس سودے بازی میں ہماری کوشش ہوتی ہے۔ کہ زیاد ہ نفع کمایا جائے۔ اور گاہک کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ رعایت لی جائے اس سلسلے میں شرعی طور پر ہم کس شرح سے نفع لے سکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام میں خریدو فروخت کرنا جائز ہونے کی چند ایک شرائط حسب زیل ہیں:
1۔فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔
2۔فروخت کردہ اشیاء اور ان کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔
3۔قابل فروخت چیز فروخت کنند ہ کی ملکیت ہواور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔
4۔فروخت کرد ہ چیز میں کسی قسم کا کوئی عیب چھپا ہوا نہ ہو۔
5 ۔کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو۔
6۔کاروبار میں سودی لین دین بطور حیلہ نہ جائز قرار دیا گیا ہو۔
7۔اس خریدوفروخت میں کسی فریق کودھوکا دینا مقصود نہ ہو۔
8۔تجارتی لین دین میں حق رجوع برقرار رکھاگیا ہو۔
اگر مذکورہ بالاشرائط کسی خریدوفروخت میں پائی جاتی ہیں تو وہ جائز اور حلال ہے۔لیکن اسلام میں کوئی شرح منافع مقرر نہیں ہے البتہ کسی کی مجبوری سے فائدہ نہ اٹھایا جائے۔بلکہ ایک دوسرے کے لئے ہمدردی اور ایثار کے جذبات ہونے چاہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے 100 ٪ نفع کمایا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اسے برقرار رکھا بلکہ ان کے لئے خیروبرکت کی دعا فرمائی۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عروہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کو ایک دینار دیا تاکہ وہ آپ کے لئے ایک بکری خرید کرلائے۔اس نے منڈی سے ایک دینار کی دو بکریاں خریدیں پھران میں سے ایک کو ایک دینار کے عوض فروخت کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نفع کا ایک دینار اور خرید کردہ بکری پیش کردی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے خیروبرکت کی دعا فرمائی۔اس دعا کا یہ اثر تھا کہ وہ اگر مٹی بھی خرید لیتے تو اس سے نفع کماتے۔(صحیح بخاری :مناقب 3642)
اسی طرح حضرت حکیم بن حزام رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دینار دیا تاکہ وہ اس سے قربانی کا جانور خرید لائے انہوں نے ایک بکری ایک دینار کے عوض خریدی راستے میں انھیں ایک گاہک ملا اسے وہ دودینار کے عوض فروخت کردی۔وہ دوبارہ منڈی گئے وہاں سے ایک دینار کے عوض ایک اور بکری خریدی اور حاصل کردہ نفع اور خرید کردہ بکری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کردی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاصل کردہ نفع ایک دینار بھی صدقہ کردینے کاحکم فرمایا۔(ابو دائود البیوع 33386)
ان روایات سے معلوم ہواکہ شرح منافع کاشریعت نے کوئی تعین نہیں کیا ہے۔فریقین باہمی رضا مندی سے خریدوفروخت کرنے کے مجاز ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب