سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(207) قسطوں کا کاروبار

  • 11408
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 2815

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فاروق آباد سے سعید ساجد لکھتے ہیں کہ آج کل قسطوں کاکاروبار  تقریباً 75 فیصد لوگ کررہے ہیں۔جس کی صورت یہ  ہے کہ کوئی آدمی گاڑی نقد خریدتا ہے تو وہ پانچ لاکھ روپے کی ہے لیکن قسطوں میں وہی گاڑی آٹھ لاکھ روپے میں ملتی ہے کیا   یہ صورت سود کے زمرے میں تو نہیں آتی؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح رہے کہ صورت مسئولہ کا تعلق مالی معاملات سے ہے مالی معاملات کے  متعلق ارشاد نبوی تعالیٰ ہے:'' اے ایمان والو!آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ مگر یہ کہ کوئی مال رضا مندانہ  تجارت کی راہ سے حاصل ہو جائے۔''(4/النساء :29)

باطل طریقہ سے مراد لین دین کا روبار اور تجارت کے وہ طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضا مندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد محفوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا غر ریاضرر کاہدف بنتا ہے۔اگر کسی معاملہ میں دھوکہ پایا گیا یااس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی بھی ہوں  تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں۔جنھیں شریعت  نے ناجائز ٹھرایا ہے اس لئے       لین دین اورباہمی تجارت نہ تو کسی ناجائز وباؤ سے ہو اور نہ ہی اس میں فریب اور ضرر کو دخل ہو اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے۔(2/البقرہ 275) لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہیں ہے بلکہ مندرجہ زیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔

1۔فریقین باہمی رضا مندی سے سودا کریں۔

2۔خرید کردہ اشیاء اور ان کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔

3۔قابل فروخت چیز فروخت کنندہ کی  ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔

4۔فروخت کردہ چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوا نہ ہو۔

5۔خریدوفروخت کسی حرام چیز کا نہ ہو او ر نہ ہی اس میں سود وغیرہ کو بظور حیلہ  جائز قرار دیا گیا ہو۔

6۔اس خریدوفروخت میں کسی  فریق کو دھوکہ دینامقصود نہ ہو۔

7۔اس  تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار  رکھاگیا ہو۔

کتب حدیث میں خریدوفروخت کی تقریباً 30 اقسام کو انہی وجہ سے  حرام ٹھرایا گیا ہے۔پھر عام طور  پرخریدوفروخت کی دو  قسمیں ہیں:

(الف) نقد۔(ب) ادھار۔

نقد یہ ہے کہ چیز اور اس کا معاوضہ فوراً حوالے کردیا جائے۔پھر معاوضہ کے لہاظ سے اس کی مذید دو اقسام ہیں:

1۔معاوضہ نقدی کی صورت میں ہو۔

2۔معاوضہ جنس کی صورت میں ہو۔

جہاں معاوضہ جنس کی صورت میں ہو اس کی  دوصورتیں ہیں:

(الف حرام۔(ب) جائز۔

حرام یہ ہے کہ ایک ہی جنس کی خریدوفروخت میں ایک طرف س کچھ اضافہ ہو جیسا کہ ایک تولہ سونا دے کر دوتولے سونا لینا ایک  کلو کھجور کے بدلے دوکلو کھجور لینا وغیرہ۔

جائز  یہ ہے کہ مختلف اجناس کی خریدوفروخت کرتے وقت کسی ایک طرف سے کچھ اضافہ کے ساتھ وصولی کرنا مثلا ایک من گندم کے عوض دو من جو لینا لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ سود انقد ہو۔

خریدوفروخت کے ادھار ہونے کی  صورت میں بھی اس کی کئی اقسام ہیں:مثلاً

1۔چیز اور اس کا معاوضہ دونوں ہی ادھا رہوں ایسا کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔فقہی اصطلاح  میں اسے بیع الکالی کہتے ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔

2۔اگر دونوں میں سے ایک نقد اوردوسری ادھار ہوتو اس کی دو صورتیں ہیں:

1۔معاوضہ نقدی کی صورت میں پہلے ادا کردیا جائے لیکن بیع یعنی فروخت کردہ جنس بعد میں حوالہ کرنا ہو اسے بیع سلم یا سلف کہا جاتا ہے اس کی شرعاً اجازت ہے بشرط یہ کہ:(الف) جنس کی مقدار اور ا س کا بھاؤ پہلے طے شدہ ہو(ب) جنس کی ادائیگی کا وقت بھی متعین ہو۔

2۔بیع یعنی فروخت کردہ چیز پہلے وصولی کرلی جائے لیکن معاوضہ کی ادائیگی ادھار ہو یہ بھی جائز ہے کیوں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی عمر کے آخری دور میں ایک یہودی سے آئندہ قیمت کی ادائیگی پر کچھ جولیے تھے اسے بیع نسئیہ کہتے ہیں اس بیع کی دو صورتیں ہیں۔

1۔فروخت کردہ چیز کا بھاؤ ایک ہو خواہ نقد ہو یا  ادھار اس ک جواز میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔

2۔فروخت شدہ چیز کے نقد اور ادھار کے دو بھاؤ ہوں اس کے جواز یا عدم جواز کے متعلق علماء کااختلاف ہے۔صورت مسئولہ میں بھی اسی کو بیان کیا گیا ہے۔اس کے متعلق ہم نے گزارشات پیش کرنی ہیں۔ لیکن ان گزارشات سے  پہلے دو اصولی باتیں گوش گزارکرنا ضروری خیال کرتے ہیں:

1۔معاملات اور عبادات میں فرق یہ ہے کہ عبادات میں اصل حرمت ہے الا یہ کہ شریعت نے اس کی بجاآوری کا حکم دیا ہو جبکہ معاملات میں اصل اباحت ہے الا یہ کہ شریعت نے کسی کے متعلق حکم امتناعی وبا ہو۔صورت مسئولہ کا تعلق معاملات سے ہے اس کے متعلق ہم نے حکم امتناعی تلاش کرنا ہے۔بصورت دیگر یہ حلال اور جائز ہے۔

2۔کسی چیز کا بھاؤ متعین کردینا شرعاً جائز نہیں ہے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اہل مدینہ ن اشیاء کے بھاؤ متعین کردینے کے متعلق عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:'' کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق اور اتار چڑھائو کا مالک ہے۔نیز وہ تمام مخلوق کارازق ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ قیامت کے دن     میرے زمے کسی کا حق ہو۔''(مسند امام احمد :3/156)

اس بنا پر اشیاء کی قیمتیں توفیقی نہیں ہیں۔ کہ ان میں کمی بیشی نہ ہوسکتی ہو۔ نیز کسی چیز کا نفع لینے کی شرح کیا ہو؟اس کے متعلق بھی شریعت کا کوئی ضابطہ نہیں ہے۔ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  سے ایسے واقعات بھی منقول ہیں۔ کے انھوں نے قیمت خرید پر دوگنا نفع وصول کیا۔(صحیح بخاری)

صورت مسئولہ یوں ہے کہ ایک دوکاندار اپنی اشیاء بایں طور فروخت کرتا ہے کہ نقد ادائیگی کی شکل میں ایک چیز کی قیمت 300 روپے ہے لیکن وہی چیز ایک سال کے ادھار پر 400 ر وپے میں اور دو سال کےادھار پر 500 میں فروخت کرتا ہے۔ ادھار کی شکل میں خریدار کو اختیارہے کہ وہ سال کے اختتام پر واجب الادا رقم یکمشت ادا کردے یا حسب معاہدہ اس رقم کو بالاقساط اداکردے۔موجودہ دور میں قسطوں  پراشیائے ضرورت بیچنے کا رواج تمام اسلامی ممالک میں عام ہوچکا ہے اور بہت سے لوگ اپنی ضرورت کی اشیاء صرف قسطوں  پر خرید سکتے ہیں۔ اور نقد خریدنا ان کی طاقت سے باہر ہوتاہے۔ واضح رہے کہ قسطوں کی صورت میں ایک چیز کی قیمت بازاری قیمت سے زیادہ مقرر کی جاتی ہے۔ بعض علماء اس زیادتی کو ناجائز کہتے ہیں کیوں کہ ثمن کی یہ زیادتی ''مدت'' کے عوض میں ہے اور جو ثمن ''مدت'' کے عوض میں ہو وہ سود ہے۔جسے شریعت نے حرام کہا ہے علامہ شوکانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے زین العابدین علی بن حسین رضی ا للہ تعالیٰ عنہ  ہادویہ کا یہی مسلک نقل کیا ہے۔لیکن آئمہ اربعہ جمہور فقہاء اور محدثین کا مسلک یہ ہے کہ خریدوفروخت کے عمومی دلائل کے پیش نظر ادھا ر بیع میں نقد کے مقابلے میں قیمت زیادہ کرنا جائز ہے۔بشر ط یہ کہ خریدار اور فروخت کنندہ ادھار یانقد قطعی فیصلہ کرکے کسی ایک قیمت پر متفق ہوجائیں۔(نیل الاوطار "5/172)

لہذا اگر بائع یہ کہے کہ میں یہ چیز نقد اتنے میں اور ادھار اتنے میں فروخت کرتا ہوں۔ اس کے بعد کسی ایک بھاؤ پر اتفاق کیے بغیر دونوں جدا ہوجائیں جہالت ثمن کی وجہ سے یہ بیع ناجائز  ہے۔ لیکن اگر عاقدین مجلس عقد میں ہی کسی ایک شق اور کسی ایک ثمن پر اتفاق کرلیں۔تو بیع جائز ہوجائےگی۔چنانچہ امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  جامع ترمذی میں لکھتے ہیں:

''بعض اہل علم نے حدیث (( بيعتين في بيعته)) کی  تشریح بایں الفاط کی کہ'' بائع مشتری سے کہے کہ میں یہ کپڑا تمھیں نقد دس اور ادھار بیس روپے میں فروخت کرتا ہوں اور کسی ایک بیع پر اتفاق کرکے جدائی نہیں ہوئی لیکن اگر ان دونوں میں سے کسی ایک پراتفاق ہونے کے بعد جدائی ہوئی تو اس میں حرج نہیں کیوں کہ معاملہ  ایک پر طے ہوگیا ہے۔''(جامع ترمذی :کتاب البیوع)

امام ترمذی کی عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ (( بيعتين في بيعته)) کے ناجائز ہونے کی علت یہ ہے ۔کہ عقد کے وقت کسی ایک صورت کی عدم  تعین سے  ثمن دو حالتوں میں مترود ہوجائےگی۔اور یہ تردد جہالت ثمن کو مستلزم ہے جس کی بنا پر ناجائز ہوئی مدت کے مقابلہ میں ثمن  زیادتی ممانعت کا سبب نہیں لہذا اگر عقد کے وقت ہی کسی ایک حالت کی تعین ہوجائے اور جہالت ثمن کی خرابی دور کردی جائے۔تو پھر اس کے جواز میں شرعاً کوئی قباحت نہیں رہے گی۔ کیونکہ قرآن وحدیث میں اس کے بیع کے عدم جواز پر کوئی نص موجود نہیں۔علامہ ابن تیمیہ  رحمۃ اللہ علیہ  معاملات کے متعلق  فرماتے ہیں:'' جو معاملات انسان کوضرورت کے  طور پرپیش آتے ہیں وہ سب حلال اور جائز ہیں الا یہ کہ  اس کی حرمت پر قرآن وحدیث میں کوئی واضح دلیل    موجودہو۔''(مجموع الفتاویٰ :28/386)

ہم نے آغاذ میں جو ایک  اصول بیان کیا تھا اس سے ایک  مرتبہ پھر بنظر غائر دیکھ لیا جائے اور اس بیع میں جو ثمن کی زیادتی ہے۔اس پر  ربا کی تعریف بھی صادق نہیں آتی۔کیونکہ وہ قرض نہیں اور نہ ہی اموال ربوی کی خریدوفروخت ہورہی ہے۔ بلکہ یہ عام بیع ہے اور اس عام بیع میں فروخت کنندہ کو شرعاً مکمل اختیار ہے کہ وہ اپنی چیز جتنی قیمت پر چاہے          فروخت کرے اور اس کے لئے شرعاًیہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی چیز کو بازار کے بھاؤ سے فروخت کرے۔اورقیمت کی  تعین میں ہر تاجرکا اپنا ایک اصول اور انداز ہوتا ہے اس پر پابندی نہیں ہے کہ وہ ایک متعین ریٹ پر اپنی اشیاء کو فروخت کرے اور اس سلسلہ میں ہمارا بیان کردہ دوسرااصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ بعض اوقات ایک ہی چیز کی قیمت حالات کے اختلاف سے مختلف ہوتی ہے۔ اگر کوئی بائع اپنی چیز کی قیمت ایک حالت میں کچھ مقرر کرے اور دوسری حالت میں کوئی دوسری مقرر کردے تو  شریعت نے اس پر کوئی قد غن نہیں لگائی لہذا اگر کوئی شخص اپنی چیز     نقد آٹھ روپے میں اور ادھار  دس  روپے میں فروخت کرتاہے تو اس شخص  کے لئے بالاتفاق یہ جائز ہے۔ کہ وہ اسی چیز کو نقد دس روپے میں فروخت کردے۔بشرط یہ کہ اس میں ضرر یا  غرر نہ ہو۔ اور جب دس روپے میں  فروخت کرنا جائز ہے تو ادھار د س  روپے میں فروخت کرنا کیوں ناجائ ہوا۔''(فتدبر)

اب ہم قارئین  کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ کہ زیر نظر مسئلہ میں نقد کی نسبت سے ادھار قیمت میں یہ تفاوت کیا ادھار کا عوض ہے۔ یا ادھار کی وجہ سے ہے؟ان دونوں کے درمیان ما بہ الامتیاز کیا ہے  تاکہ بزریعہ نص ہوناحرام اور ناجائز سود سے اس کا فرق ہوسکے واضح رہے کہ ادھار کی وجہ سے قیمت میں یہ  تفاوت ادھار کا معاوضہ نہیں ہے۔ کیوں کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ  اس ادھار کی قیمت میں  کچھ قیمت تو بیع کی ہو اور کچھ قیمت اس اجل کی ہو جو عاقدین نے قیمت کی ادائیگی  کے لئے طے کی ہے۔بلکہ معاشرتی حالات کو مد نظر  رکھتے ہوئے ادھار میں جو سہولت میسر آتی ہے۔اس کی وجہ سے کچھ اضافہ ہوا ہےہم آسانی کے پیش نظر اسے یوں تعبیر کرتے ہیں۔''ان الزياد ة هٰهنا لاجل  الاجل لا لعوض الاجل ''یہاں پرقیمت میں اضافہ ادهار كی وجہ سے ہے ادھار کے عوض  میں نہیں ہے۔ قرآن وحدیث میں اس قسم کی متعدد نظائر پائی جاتی ہیں۔جس میں ادھا ر کی وجہ سے قیمت میں زیادتی آتی ہے۔جنھیں ہم آئندہ بیان کریں گے۔ حقیقت یہ ہے  ہے کہ اجل ایک وصف ہے۔ اور وصف کا معاوضہ نہیں ہوتا۔ لیکن وصف کے مرغوب ہونے کی وجہ سے قیمت  بڑھ سکتی ہے۔ اور وصف کے ناپسند ہونے کی وجہ سے قیمت کم ہوجاتی ہے۔اس کی و ضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دو صاع کھجور کے عوض ایک صاع کھجور لینے کو ناجائز ٹھرایا ہے۔آپ نے اس کے متعلق مذید تاکید کی ہے کہ عمدہ کھجور کا بھی مقابلہ ہوتو برابر برابر لینا ہوگا۔اس کے عمدہ ہونے کی صورت میں اضاضہ نہ دے سکتے ہیں اور نہ ہی لے سکتے ہیں۔بہترین کھجور کے ایک سیر کے بدلے میں معمولی کھجور کے دو سیر دینے سے منع فرمادیا کہ اس میں سیر کے بدلے میں آجاتا ہے اور دوسرا سیر اس کے وصف جودت(عمدگی) کے عوض میں لیا جاتا ہے۔ جو کہ ناجائز ہے۔ پھر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی تدبیر یوں فرمائی کہ روی کھجور کو کم قیمت میں فروخت کردو پھر حاصل ہونے والے زرثمن سےبہتر کھجور کو زیادہ قیمت خرید سے خریدلو  اس معاملہ میں بہتر کھجور کی قیمت میں اضافہ اس کے وصف مرغوب  کی وجہ سے ہے ۔اس عقلی اور فطری بات سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ مرغوب چیز کی قیمت بمقابلہ نا مرغوب کے زیادہ ہوگی لیکن یہ صورت ناجائز ہے کہ ایک سیر بہتر کھجور کے بدلہ میں دوسیر معمولی کھجور دی جائے اس طرح یہ بھی ناجائز ہے کہ بہتر کھجور والے کو  معمولی کھجور کا ایک سیر اور اس کے ساتھ ایک روپیہ دیا جائے کیوں کہ اس صورت یہ روپیہ یا دوسرا سیر وٖصف جودت کا عوض ثابت ہوگا اور وصف کا عوض لینا جائز نہیں ہے لیکن بہتر کھجور کو عام نرخ سے زیادہ قیمت پرخریدنا بالکل جائز ہے کیوں کہ یہاں قیمت کا اضافہ اس کے وصف(عمدگی) کی وجہ سے اس وصف کا عضانہ نہیں ہے آپ نے ملتان سے لاہو جانے کا پروگرام بنایا ہے اس کے لئے عام گاڑی اے سی اور ہوائی جہاز تین زائع ہیں ان تینوں زرائع کا کرایہ الگ الگ ہے یہ تفاوت ان زرائع میں دی گئی سہولتوں کے پیش نظر ہے ایسا نہیں ہوتا کہ اصل کرایہ تو عام گاڑی کا ہے تو باقی جو کرایوں میں تفاوت ہے وہ ان سہولتوں کاعوض ہے جو آپ کو دی گئی ہیں اب آپ ادھار پر فروخت کی گئی چیزکی مدت پر غور کریں کہ نفس اجل کا عوض لینا ناجائز ہے لیکن اس کی وجہ قیمت کابڑھ جانا فطری اور عقلی بات ہے اور شریعت نے اس سے منع نہیں کیا اسی کو فقہائے اسلام نے یوں تعبیر کیا ہے:

''ان لاجل لا يقابل الثمن ان الثمن يزاد لاجل الاجل’’ثمن'اجل

 کا عوض نہیں ہوتی البتہ اجل کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

نفس اجل پر عوض لینے کی صورت یوں ہوسکتی ہے۔ کہ ایک ماہ  پر کسی چیز کا ادھار سودا ہوا کہ اس کے قیمت ایک ہزار روپیہ ایک ماہ پر ادا ہوگی۔جب خریدار نے ایک ماہ بعد اس کی قیمت ادا نہ کی تو اسے کہا جائے۔کہ آپ دوسرے ماہ کے اختتام پر اس کی قیمت ادا کر دیں لیکن ساتھ پچاس روپے اضافی طور پردیں۔یہ صورت ناجائز ہے۔ کیوں کہ اس میں اجل کو فروخت کیا گیا ہے اور پچاس روپے اس اجل کا عوض ہیں اس کے برعکس اجل ایک وصف مرغوب ہے کہ مشتری کو فوری طور پر رقم ادا نہیں کرنی پڑتی آسانی سے کام چلا لیتا ہے۔ا س لئے وہ چیز ادھار پر دینے کی وجہ سے اس کی قیمت میں اضافہ ہوگیا۔ اس بیع موجل اور معاملہ سود میں فرق یہ کہ سودی معاملہ میں اصل دین (قرض) پرمہلت کے عوض اضافہ ہوتا ہے جبکہ بیع موجل میں مہلت کی وجہ سے بوقت عقدزیادہ قیمت طے کی جاتی ہے۔دوسرا فرق یہ ہے کہ سودی معاملہ میں مدت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس زیادتی میں اضافہ ہوجاتا ہے جبکہ بیع موجل میں ایک ہی دفعہ قیمت زیادہ لگائی جاتی ہے۔بار بار ایسا نہیں کیا جاتا ہم اسے ایک مثال سے سمجھاتے ہیں:

اگر مشتری نے کوئی چیز دس روپے میں اس شرط پر خریدی کہ ایک ماہ بعد اس کی قیمت ادا کرے گا۔اگر وہ ایک ماہ کی بجائے دو ماہ میں قیمت ادا کرے تو بھی وہ  دس روپے ہی ادا کر گا۔اب مدت کی زیادتی کی وجہ سے قیمت میں زیادتی نہیں ہوگی۔لیکن اگر بائع معاملہ طے ہونے کے بعد ایک ماہ کی تاخیر پر دو پھر دو ماہ کی تاخیر پرچار اور اسی طرح تین ماہ کی تاخیر  پر چھ روپے اصل طے شدہ رقم سے زیادہ وصول کرے تو یہ سود ہے جو کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔

قارئین کرام! جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔کہ زیر نظر مسئلہ یعنی نقد اور ادھار کے بھاؤ میں کمی بیشی کرنا شرعاً جائز ہے کیوں کہ یہ ادھار خریدوفروخت کی ہی ایک صورت ہے جس کی شریعت نے اجازت دی ہے۔اور اس کے متعلق صریح نصوص موجود ہیں تاہم ادھار کی بنا  پر قیمت زیادہ وصول کرنا فکر ونظر اور غور وخوض کا متقاضی ہے کیوں کہ خریدوفروخت کی بعض صورتیں ایسی ہیں کہ ان میں ادھار جائز نہیں ہے جیسا کہ سونے کے بدلے سونا یا گندم کے عوض جو لینا اسی طرح بعض صورتیں ایسی ہیں کہ کسی طرف سے اضافہ حرام ہے۔جیسا کہ چاندی کے بدلے چاندی کا کاروبار کرنا نیز ادھار کی وجہ سے قیمت بڑھا دینا کسی صریح نص سے ثابت نہیں ہے ۔البتہ قرآئن وشواہد اور استنباط واستخراج سے اس کاجواز ملتا ہے جس کی تفصیل حسب زیل ہے:

''ارشاد باری  تعالیٰ ہے:''اے ایمان والو! جب تم ایک وقت مقررہ تک ادھار کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔''(2/البقرہ 282)

اس آیت کو آیت مداینہ کہا جاتا ہے حضرت ابن عباس  رضی ا للہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں:'' کہ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے مقررہ مدت تک کئے ہوئے عقد سلم کے معاملہ کو اپنی کتاب میں آیت مداینہ کی رو سے حلال قرار دے کر اس کی اجازت دی ہے۔''(مستدرک حاکم :2/286)

عقد سلم کی  تعریف محدثین اورفقہاء نے بایں الفاظ کی ہے:''بیع اجل بعاجل''نقد پیشگی قیمت د ے کر آئندہ خرید کردہ چیز وصول کرنے عقد اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کوئی مشتری مقررہ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے کسی شخص کو ایک ہزار  رو پیہ  دے اور یہ معاہدہ کرے کہ تم یہ رقم پیشگی وصول کرکے فلاں وقت مجھے اتنی گندم اس بھاؤ سے دینے کے پابندہو اور بائع بھی مقرر شرائط کا لہاظ رکھتے ہوئے رقم وصول کرک معاہدہ کرے تو اسے عقد سلم کہا جاتاہے۔ اس عقد کی ماہیت پر غور کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے۔ کہ مشتری وقتی طور پر یکمشت زر سلم کی ادائیگی پر تیار ہوکر مہینوں تک خرید کر دہ چیز کی وصولی کا انتظار کرتا ہے ایسا کیوں ہے؟کیا اس میں فریق ثانی کی خیر خواہی اور ہمدردی مقصود ہے۔؟ہر گز نہیں اگر ایسی بات ہوتی تو اسے قرض حسنہ دیتا جو مشکل کے وقت ا س کے کام آتا۔متعدد شرائط کی رعایت کرکے پیشگی رقم دے کر مہینوں تک خرید کردہ چیز کی وصولی کا انتظار کرنے سے اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا کہ اسے مقررہ وقت پر خرید کرد ہ چیز ارزاں دے کر مہینوں تک خرید کردہ چیز کی وصولی کا انتطار کرنے سے اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا کہ اسے مقررہ وقت پرخرید کر دہ چیز ارزاں قیمت میسر ہوکیوں کہ عقد سلم میں خرید کردہ چیز بائع کو بازار کی قیمت سے سستی پڑتی ہے۔

اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ عقد سلم میں قیمت کی پیشگی ادائیگی اور خرید کردہ چیز کی  تاخیر سے اس چیز کی قیمت متاثر ہوتی ہے۔عقد سلم میں ادھار اور شرط ہے جیسا کہ امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی صحیح میں اس پر ایک عنوان بھی قائم کیا ہے اگر اس میں ادھار نہ ہوتو عقدسلم کی حقیقت ہی ختم ہوجاتی لہذا جب بیع آجل بعاجل میں ادھار کی وجہ سے قیمت میں تفاوت کا آنا ممنوع نہیں تو زیر نظر مسئلہ جودراصل بیع عاجل باآجل ہے۔اس میں قیمت کا تفاوت کیوں ممنوع قراردیا جائے۔ بلکہ نقد ادھار کی وجہ سے خرید کر وہ چیز اور اس کی قیمت کا متاثر ہونا یعنی کم یا زیادہ ہوناغیر مشروع نہیں اور نہ سود کے زمرے میں آتاہے۔(فتدبر)

حضرت عائشہ  رضی ا للہ تعالیٰ عنہا  فرماتی ہیں:''کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابولثم نامی ایک یہودی    سے تیس صاع جو ادھار پر لئے اور اپنی زرہ اس کے ہاں گروی رکھی۔''(بخاری کتاب البیوع باب شراء النبی بالنیئہ)

ہم یہودی کے اس معاملہ کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ایک متعصب دشمن اسلام سے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا معاملہ اور  اس کے بعد ر وز مرہ ضروریات میں کام آنے والی چیز زرہ کو رہن رکھنے کے پس پردہ واقعات کاجائزہ لینے سے جوصورت سامنے آتی ہے اس میں زیر نظر مسئلہ کے جواز پرقوی شوہر موجود ہیں۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرہ میں جب کسی چیز کی مانگ زیادہ ہوتو اس کے خریدار بھی بڑھ جاتے ہیں۔اور جب خریدار زیادہ ہوں تو اس چیز کے نقد فروخت ہونے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں ایسے موقع پر بائع ادھار کی نسبت نقد کوزیادہ ترجیح دیتا ہے۔ہاںاگر اسے ادھار فروخت کرنے میں مالی منفعت زیادہ نظر آئے تو پھر اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس معاملہ کے وقت مدینہ منورہ کی معاشی حالت یہ تھی کہ غلہ کی ضرورت بہت زیادہ تھی عموماً لوگوں کو بیرونی قافلوں کے آنے کا انتظار کرنا پڑتا اور جب بھی قافلہ آنے کی خوش  خبری سنائی جاتی تو فاقہ زدہ معاشرہ کی حالت بسااوقات غیر ہوجاتی۔ چنانچہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  خطبہ جمعہ دے رہے تھے۔ کہ قافلہ آنے کی خبر ملی خبر سنتے ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  کی کثیر تعداد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو خطبہ کی حالت میں اکیلے چھوڑ کرقافلہ کی طرف دوڑی پڑی اور اس وقت خریدوفروخت کی مارکیٹ پر  یہود کا قبضہ تھا وہ قافلہ سے غلہ خرید کر بعد میں اپنی مرضی کی قیمت پر اسے  فروخت کرتے تھے۔ایسی ضروریات کی اشیاء میں انہیں نقد کا گاہک بسہولت میسر تھا۔یہ لوگ نقد کی بجائے ادھا ر کو ترجیح کسی شوق یا جذبہ ہمدردی کی وجہ سے نہ دیتے تھے۔ بلکہ مالی منفعت کی خاطر ادھار کا معاملہ کرتےتھے۔ایسے حالات میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ادھار کے معاملے میں غالب گمان یہی ہے۔ کہ نقد کی نسبت سے ادھار میں قیمت کا تفاوت لازمی طور پر اختیار کیاگیا ہوگا مالی منفعت اور زیادہ قیمت کی وصولی کے سوا یہودی کے اس اقدام کے لئے اور کوئی دوسرا محرک نظر نہیں آرہا تھا۔

آخر میں ہم شیخ عبدالعزیز  ابن باز رحمۃ اللہ علیہ  کا ایک فتویٰ درج کئے دیتے ہیں کیوں کہ اس فتویٰ س مزید کئی پہلو روشن ہوتے ہیں۔شیخ صاحب سے کسی نے بایں الفاظ سوال کیا:

''بیع میں اگر نقد کی نسبت ادھار یا قسطوں پر قیمت زیادہ ہوتو اس کا حکم کیا ہے؟''

اس پر آپ نے حسب زیل جواب دیا:

''معلوم مدت والی  بیع جائز ہے جبکہ اس بیع میں معتبر شرائط پائی جاتی ہوں اس طرح قیمت کی قسطیں کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جبکہ  یہ اقسام معروف اور مدت معلوم پر مشتمل ہوں چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

''اے ایمان والو! جب تم ایک مقرر ہ مدت کے ادھار پر لین دین کرو تو اسے لکھ لیاکرو۔''(2/البقرۃ :282)

نیز رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کہ جب کوئی شخص کسی چیز میں بیع سلم کرے تو ناپ تول اور مدت معین کرکے کرے۔''(صحیح بخاری)

حضرت بریرۃ  رضی ا للہ تعالیٰ عنہ  کے متعلق احادیث میں ہے کہ انہوں نے خود کو اپنے مالکوں سے اوقیہ چاندی میں خرید لیا کہ ہر سال ایک اوقیہ چاندی ادا کرنا ہوگی۔(صحیح بخاری)

یہی قسطوں والی بیع ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس بیع کو معیوب خیال نہیں کیا بلکہ آپ خاموش رہے اس سے منع نہیں  فرمایا اوراس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ قسطوں میں قیمت نقد کے برابر ہو یامدت کی وجہ سے زیادہ ہو۔(فتاویٰ شیخ عبدا لعزیز ابن باز:142)

ایک اور فتویٰ میں آپ نے اس روایت سے بھی  اس کے جواز پر استدلال کیا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت عبدا للہ بن عمر وبن العاص رضی ا للہ تعالیٰ عنہ  سے فرمایا تھا۔ کہ وہ ایک لشکر ترتیب دیں۔اور اس کے لئے لوگوں سے حاضر اونٹ اس شرط پرخرید لیں کہ جب زکواۃ کے اونٹ آئیں گے تو ایک اونٹ کے عوض دو اونٹ دیئے جائیں گے۔''(مستدرک حاکم بیہقی)

ا ن قرآئن وشواہد کی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ نقد اورادھار کی قیمت میں فرق کیا جاسکتا ہے اور ادھار کی اقساط بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ معاملہ غلط ہے۔ کہ اگر کسی ایک قسط میں دیر ہوجائے تو اسکی باقی اقساط ضبط کرلی جایئں یا مدت بڑھا کر ان میں مذید اضافہ کردیا جائے ایسا کرنا سراسر زیادتی اور ظلم کے ساتھ ساتھ صریح سود ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:230

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ