السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی رمضا ن المبا رک میں بلا عذر شر عی بے روزہ رہتا ہے جب کہ اس کی بیو ی پا بند ی سے روزے رکھتی ہے خا و ند بیو ی سے اپنی خو اہش کا اظہا ر کر تا ہے بیو ی کے با ر با ر انکا ر کر نے کے با و جو د با ز نہیں آتا اب عورت مجبو ر ہے اس کا روزہ ٹو ٹنے پر اسے گنا ہ ہو گا یا نہیں نیز خا و ند کا کر دار شر یعت کی نظر میں کیسا ہے ؟ کیا اس پر کو ئی حد یا تعز یر لگا ئی جا سکتی ہے کتا ب و سنت کی رو شنی میں جوا ب دیں ۔(محمد افضل -----ڈسکہ )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ گھر میں رہتے ہو ئے رمضا ن ا لمبا رک میں ہر عاقل و با لغ کے لیے روزہ رکھنا فرض ہے بشر طیکہ وہ تند رست ہو بلاوجہ روزہ تر ک کر نا بہت سنگین جرم ہے حدیث نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ایسا انسا ن ہر قسم کی خیر و بر کت سے محروم کر دیا جا تا ہے اور قیا مت کے دن وہ بڑ ی المنا ک سزا سے دو چار ہو گا اور جو انسا ن کسی دوسرے کے روزے کو خرا ب کر نے کا با عث ہے وہ بھی اسی قسم کی سزا کا حقدا ر ہے رمضا ن المبا رک میں روزہ تو ڑ نے کا کفا رہ یا تاوان اس صورت میں پڑتا ہے جب پہلے روزہ رکھا ہو ا ہو پھر اسے خرا ب کر دیا جا ئے مسئو لہ میں خا و ند نے ایک سنگین قسم کی غلطی کا ارتکا ب کیا ہے جو شر عاً قا بل تعز یر ہے لیکن قا بل حد نہیں ہے اسے اللہ تعا لیٰ سے معا فی ما نگنا چا ہیے البتہ بیو ی مجبو ر اور بے بس ہے اس پر کو ئی گنا ہ نہیں ہے چو نکہ اس کا روزہ ٹوٹ چکا ہے اس لیے رمضا ن کے لیے اس روزہ کی قضا دینا ہو گی جب بھی مو قع ملے اپنے خا و ند کے علم میں لا کر روزہ رکھ لے ۔(واللہ اعلم )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب