السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میلسی سے حبیب اللہ لکھتے ہیں کہ صدقۃ الفطر کس چیز سے ادا کر نا چا ہیے نیز اس کی مقدا ر کتنی ہے اگر قیمت ادا کر دی جا ئے تو کیا یہ درست ہے یا نہیں اور یہ بھی بتا ئیں کہ مو جو د ہ اعشا ری نظا م کے مطابق اس کا کتنا وزن بنتا ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
علا مہ ابن حز م رحمۃ اللہ علیہ کا مو قف ہے کہ فطرا نہ میں صرف کھجو ر یا جو ہی دئیے جا ئیں اس کے علا وہ دوسری اشیا ء سے صدقہ فطرجا ئز ہے لیکن یہ مو قف صحیح احا دیث کے خلا ف ہے احا دیث سے معلو م ہو تا ہے کہ جن اجنا س کو انسا ن بطو ر غذ استعما ل کر تا ہے ان سے صدقہ فطر ادا کیا جا سکتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عمو ماً جو کھجور منقی اور پنیر وغیرہ بطو ر خو را ک استعما ل ہو تے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین کو انہی اجنا س خو ردنی سے صدقہ ادا کر نے کا حکم دیا چنانچہ حضرت ابو سعید خردی رضی ا للہ تعالیٰ عنہ فر ما تے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبا رک میں اپنی خو را ک میں سے ایک صا ع بطو ر فطر انہ ادا کر تے تھے اور ہما ری خو راک جو منقی پنیر اور کھجو ر ہو ا کر تی تھی اس لیے فطرا نہ ہر اس چیز سے ادا کیا جا سکتا ہے جو سا ل کے بیشتر حصہ میں بطو ر خو را ک استعما ل ہو تی ہے ۔(صحیح بخا ری )
گھر کے ہر فرد کی طرف سے صدقہ فطر ایک صاع اداکیا جا ئے البتہ گند م سے نصف صاع ادا کر نے کی روا یا ت بھی منقو ل ہیں حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی ا للہ تعالیٰ عنہا فر ما تی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبا رک میں گندم سے دو مد یعنی نصف صا ع بطو ر فطر انہ ادا کر تے تھے ۔(مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ :6/350)
شیخ الا سلا م امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں " کہ فطر انہ کی مقدار کھجور اور جو سے ایک صا ع اور گند م سے نصف صا ع ادا کیا جا سکتا ہے ۔(اختیا رات :106)
ان کے تلمیذ رشید امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی مو قف کو اختیا ر کیا ہے ۔(زادا لما عا د : ہدیہ فی صدقۃ الفطر )
عرب میں دوسری ایشا ئے خوردنی کے مقا بلہ میں گندم چو نکہ مہنگی ہو تی تھی اس لیے نصف صاع کا اعتبا ر کیا گیا ہے بعض صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین اس کے با وجو د گندم سے بھی ایک صاع دینے کے قا ئل اور فا عل تھے تا ہم ہمار ے ہا ں گند م عا م دستیا ب ہے اس لیے گند م سے ایک صاع ہی ادا کر نا چا ہیے صریح نصوص کا یہی تقا ضا ہے ۔
ہما ر ے ہا ں عا م طو ر پر غر با کی ضرورت کے پیش نظر صدقہ فطر میں نقدی دی جا تی ہے حا لا نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین سے قیمت ادا کرنا ثا بت نہیں ہے بلکہ عہد نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم اور دور خلا فت را شد ہ میں میں فطرانہ اجنا س خو ردنی سے ادا کیا جا تا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرا نہ کا مقصد مسا کین کی خو را ک ٹھہرا یا ہے اس کا تقا ضا بھی یہی ہے کہ فطرا نہ میں اشیا ئے خو ردنی ہی ادا کی جا ئیں امام ما لک رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل ( رحمۃ اللہ علیہ ) صرف جنس ہی ادا کر نے کے قائل ہیں محدثین کرا م میں سے کسی نے بھی اس با ت کی صرا حت نہیں کی کہ فطرا نہ میں قیمت دی جا سکتی ہے بلکہ محد ث ابن خز یمہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عنوان یو ں قا ئم کیا ہے ۔"اس با ب میں صدقہ فطر کے طور پر ہر قسم کی اشیا ئے خوردنی ادا کر نے کا بیا ن ہے نیز اس شخص کے خلا ف دلیل ہے صدقہ فطر میں پیسے اور نقدی ادا کر نے کو جا ئز خیا ل کر تا ہے ۔(صحیح ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ )
اس کے بعد انہو ں نے حضرت ابن عبا س رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کا قو ل نقل کیا ہے کہ رمضان کا فطر انہ ایک صاع طعا م سے ادا کیا جا ئے جو گند م سے قبو ل کی جا ئے گی نیز جو کھجور منقی وغیرہ کو بھی قبو ل کیا جا ئے گا حتی کہ انہوں نے آٹے ستو کا بھی ذکر فر ما یا ہے لیکن اس میں قیمت کا کو ئی ذکر نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ لو گ فطرا نہ میں قیمت ادا کر نے سے با لکل نا آشنا تھے ۔(صحیح ابن خز یمہ رحمۃ اللہ علیہ )
علا مہ ابن حز م رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ فطرا نہ میں قیمت ادا کرنا بالکلنا جا ئز ہے کیو نکہ قیمت کا ادا کر نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثا بت نہیں ہے نیز حقو ق العبا د میں فر یقین کی رضا مند ی سے قیمت ادا کی جا سکتی ہے جب زکو ۃ کے وقت کو ئی ما لک نہیں ہو تا جس کی اجا زت کا اعتبا ر کیا جا ئے ۔(محلیٰ ابن حز م :6/137)
محد ث العصر علا مہ عبید اللہ مبا رک پو ری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ صدقہ فطر میں قیمت نہ دی جا ئے بلکہ جنس ادا کی جا ئے البتہ کسی عذر کے پیش نظر قیمت ادا کی جا سکتی ہے ۔(مرعا ۃ المفا تیح :4 /100)
عذر کی صورت یو ں ہو سکتی ہے کہ ایک شخص روزا نہ با زا ر سے آٹا خرید کر استعما ل کر تا ہے تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ با زا ر سے غلہ خرید کر صدقہ فطر ادا کر ے بلکہ وہ بازا ر کے نر خ کے مطا بق اس کی قیمت ادا کر سکتا ہے ۔
صاع وزن کا پیما نہ نہیں بلکہ ما پ کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں وزن کے پیما نے مو جو د تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کے لیے وزن کے بجا ئے ما پ کے پیما نہ کا انتخا ب کیا اس لیے بہتر ہے کہ اس سنت کا احیا کیا جائے ویسے صاع کا وزن مختلف اجنا س کے لحا ظ سے مختلف ہو تا ہے صاع نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدا ر 33۔5رطل تھی (فتح الباری :1/305)
مختلف فقہا کی تصریح کے مطا بق ایک رطل نو ے مثقال کا ہو تا ہے اس حسا ب سے 33۔5رطل(صا ع نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ) کے 480 مثقا ل بنتے ہیں ایک مثقا ل ساڑھے چا ر ما شہ کا ہو تا ہے اس حسا ب سے 480 مثقا ل کے دوہزا ر ایک سو سا ٹھ (2160)ما شے ہو ئے چو نکہ ایک تو لہ میں با رہ ما شے ہو تے ہیں لہذا با رہ تقسیم کر نے سے ایک سوا سی (180) تولہ وز ن بنتا ہے جد ید اعشا ری نظا م کے مطا بق تین تو لہ کے 35 گرام ہو تے ہیں اس حسا ب سے 2100گرا م یعنی دو کلو سو گرا م ہے پرا نے حسا ب کے مطا بق 180 تو لہ کا وزن دو سیر چا ر چھٹا نک ہے ہمارے اس مو قف کی تا ئید اس پیما نہ صاع ا سے بھی ہو تی ہے جو مو لا نا احمد اللہ دہلو ی رحمۃ اللہ علیہ مد ینہ منو رہ سے لا ئے تھے جس کی مقدا ر دو سیر چا ر چھٹا نک بھی نیز وہ مد ینہ سے ایک مد بھی لا ئے تھے جس کی با قاعدہ سند تھی اس کی مقدار نو چھٹا نک تھی وا ضح رہے کہ ایک صا ع میں چا ر مد ہوتے ہیں اس کے علا وہ مو لا نا عبد الجبا ر رحمۃ اللہ علیہ کے پا س ایک صا حب مد کا پیما نہ لا ئے تھے جس کا و ز ن کیا گیا تو نو چھٹا نک کا تھا ۔(فتا وی اہلحدیث :2/72)
اگر چہ کچھ اہل حدیث حضرا ت صاع کا وز ن پو نے تین سیر مو جو د اعشاری نظا م کے مطا بق اڑھا ئی کلو بتا تے ہیں ہم نے اپنی تحقیق نقل کر دی ہے اگر اس سے کسی کا اتفا ق نہ ہو تو وہ اپنی تحقیق کے مطا بق فطرا نہ ادا کرتا رہے ضروری نہیں کہ وہ ہما ری پیش کر دہ تحقیق سے متفق ہو
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب