السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص نوافل ادا کرتا ہے یا تلاوت قرآن پاک کرتاہے ،دوسرا اسے یہ کہ کر روکتا ہے کہ یہ ریاء ہے اور تو ریا کار ہے تو کیا روکنے والے بات صحیح ہے یا اس شخص کا عمل ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شیخ الاسلام (23؍174)میں فرماتے ہیں ،اگر کسی کا کوئی مشروع ورد ہو جیسے چاشت کی نماز یا قیام اللیل وغیرہ تو وہ جہاں کہیں بھی ہو پڑھ لیا کرے ،اور لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے اپنا ورد نہ چھوڑے جب کہ اس کے دل کی کیفیت کا اللہ کو علم ہو کہ وہ اللہ کے لیے ہی کر رہا ہے اور اسی طرح ریاء اور اخلاص کے مفاسد سے بچنے کی کوشش کرتا رہے ،اسی لیے فضیل بن عیاض فرماتے ہیں لوگوں کی وجہ سے عمل کو ترک کرنا ریاء ہے اور کوئی عمل لوگوں کی وجہ سے کرنا شرک ہے اور وہ جگہ جہاں وہ رہ رہا ہے او روہ جگہ اس کے لیے عبادت میں مھ او رمدد گار ہے وہاں عمل کرنا بہتر ہے اسی جگہ سے جہاں اسے اسباب معیشت میسر نہ ہوں او راس سبب سے اس کا دل مشغول ہو اور جب نماز میں دل کی یکسوئی اور وساوس سے امت میسر ہو تو وہ نماز کامل ہو گی ۔اور جو شخص محض اپنے خیال کی بناء پر کسی کام سے منع کرے تو اس کی نہی کئی وجہ سے مردود ہے ۔
پہلی وجہ :ریاء کے ڈر کی وجہ سے مشروع اعمال سے منع نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان اعمال کا اخلاص کے ساتھ حکم دیا جائے ،اگر ہم کسی کو کوئی عمل کرتا دیکھیں تو انہیں کرتا رہنے دیں گے اگرچہ ہمیں یقین ہو کہ وہ ریاء کے لیے کر رہے ہیں ،کیونکہ منافقین جن کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں :
﴿إِنَّ المُنـٰفِقينَ يُخـٰدِعونَ اللَّـهَ وَهُوَ خـٰدِعُهُم وَإِذا قاموا إِلَى الصَّلوٰةِ قاموا كُسالىٰ يُراءونَ النّاسَ وَلا يَذكُرونَ اللَّـهَ إِلّا قَليلًا ١٤٢﴾...سورة النساء
(بے شک منافق اللہ سے چال بازیاں کر رہے ہیں او روہ انہیں چال بازی بدلہ دینے والا ہے او رجب نماز کو کھڑے ہو تے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں ،صرف لوگوں کو دکھلاتے ہیں ،او ریاد الہی تو یونہی برائے نام کرتے ہیں )
تو یہ لوگ ظاہر میں جو دین کے کام کرتے تھے نبی ﷺاو رمسلمان انہیں کرنے دیتے تھے اگرچہ وہ ریاء کار ہوتے او رظاہری اعمال سے انہیں نہیں روکتے تھے کیونکہ بظاہر مشرب کے ترک میں جو فساد ہے وع بظاہر ریاء کے لیے کرنے کے فساد سے بڑا ہے جیسے کہ ظاہر ایمان او رنماز ترک کرنے کا فساد ریاء کے طور پر ایمان و نماز کے اظہار سے برا ہے ،انکار تو اس فساد کا کیا جائے جس کا اظہار لوگوں کو دکھلانے کے لیے کیا جائے ۔
دوسری وجہ :انکار واقع ہوتا ہے اس جو شریعت کا انکار کرے رسول اللہﷺنے فرمایا:مجھے لوگوں کے پیٹ پھاڑ کر ان کے دلوںمیں جھانکنے کا حکم نہیں ملا ‘‘اور عمر نے فرمایا،’’جو ہمارے لیے بھلائی ظاہر کرے گا تو ہم اس کی وجہ سے اس کے محبت او ردوستی کریں گے ،‘‘اگرچہ اندر سے اس کے خلاف ہو ،اور ہمارے لیے شر ظاہر کرے گا تو اس کی وجہ سے ہم اس سے بعض رکھیں گے اگرچہ وہ اندر سے درست ہو ،‘‘۔
تیسری وجہ :اگر یہ جائز کھا جائے او اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ مشرک او رفسادی اہل خیرد دیندار پر انکار کریں گے دب وہ
کسی کومشروع ومسنون کام کرتا دیکھیں گے او رکہیں گے یہ ریاءکار ہے تو سچے اور مخلص لوگ بھی مشروع کاموں کو ان کی ملامت و طعن کی وجہ سے ظاہر میں کرنا چھوڑ دیں گے ،تو خیر کے کام معطل ہو جائیں گے اور مشرکوں کی شان و شوکت باقی رہے گی وہ ظاہر کریں گے اور کوئی ان پر انکار نہیں کرے گا ۔ او ریہ سب سے بڑا فساد ہے ۔
چوتھی وجہ:یہ منافقو ں کا شعار ہے کہ وہ مشروع کام کرنے والوں پر طعن کرتے ہیں فرماتے ہیں :
﴿الَّذينَ يَلمِزونَ المُطَّوِّعينَ مِنَ المُؤمِنينَ فِى الصَّدَقـٰتِ وَالَّذينَ لا يَجِدونَ إِلّا جُهدَهُم فَيَسخَرونَ مِنهُم ۙ سَخِرَ اللَّـهُ مِنهُم وَلَهُم عَذابٌ أَليمٌ ٧٩﴾...سورة التوبة
(جو لوگ ان مسلمانوں پر طعن زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں او ران لوگوں پر جنہیں سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسر ہی نہیں ،پس یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں ،اللہ بھی ان سے تمسخر کرتا ہے ،انہی کے لیے دردناک عذاب ہے )‘‘ نبی ﷺنے تبوک کے سال انفاق کی ترغیب دی تو ایک صحابیایک بھری تھیلی لے کر آئے جیسے وہ بمشکل اٹھائے ہوئے تھے قریب تھا کہ سے گر پڑتی او انہوں نے کہا ،یہ ریاء کار ہے او رکوئی ایک صاع اگر لے کر آئے تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ اللہ کو اس کے صاع کی کیا ضرورت ہے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا ،اللہ تعالی نے یہ آیت تازل فرمائی ،جو اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار مومنوں پر طعن ونی کرنے والوں کے لیے عبرت بن گئی ۔واللہ اعلم.
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب