سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(65) تجارت میں کوشش و محبت خلاف تقدیر نہیں

  • 11391
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 918

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تجارت میں کوشش او رمحنت کرنے کے بارے میں بتائیں ،کیا یہ عقیدہ تقدیر کے خلاف ہے یعنی جو نفع کمانے کے لیے تجارت میں کوشش کرتا ہےتو کیا اس کا تقدیر پر ایمان ہے یا نہیں ؟(آپ کا بھائی محمد اسماعیل )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولا حو ل ولاقوةالا باللہ۔

یہ تقدیر کے خلاف نہیں تقدیر کے موافق ہے ،تقدیر کا یہ مطلب نہیں کہ آپ عاجز اور مہمل بن کر بیٹھ جائیں اور عقیدہ یہ ہو کہ مال (جو میری تقدیر میں ہے )میرے پاس آئے گا ۔کیونکہ اللہ نے تقدیر میں تمہارے لیے لکھا ہے ،یہ منع ہے کیونکہ حدیث صحیح میں ثابت ہے جسے نکالا ہے ابو داؤد :(2؍155)باب القضاء میں او رمشکوٰۃ (2؍328) میں عوف بن مالک ﷜سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کیا ،جس کے خلاف فیصلہ کیا جب وہ جانے لگا تو کہنے لگا :مجھے اللہ کافی ہے او روہ اچھا کار ساز ہے ،تو بنی ﷺنے فرمایا :اللہ تعالی عجر پر ملامت کرتا ہے تمہیں عقل مندی لازم پکڑنی چاہیے اس کے بعد اگر کوئی مقابلے میں غالب آ جائے تو پھر :حسی اللہ ونعم الوکیل ‘‘کہنا چاہیے ،انسان کے لیے مناسب ہے کہ ہو اسباب سے کام لے اور پھر اللہ پر توکل کرے ،نہ یہ کہ بیٹھا رہے او راللہ پر توکل  کرے ،اشیاء میں تقدیر اللہ تعالی نے اس کے اسباب کے ساتھ مقرر فرمائی ہے،

مثال کے طور پر اللہ تعالی فرماتا ہے :فلاں شخص جب صلہ رحمی کرے گا تو میں اس کی عمر بڑھا دوں گا ورنہ نہیں ،اور فلاں شخص جب کمائے گا تو میں اسے ما ل دوں گا ورنہ نہیں ،اور فلاں شخص جب اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے یہ حاصل ہوگا ورنہ نہیں ،جو کسب و کوشش  تقدیر کے مخالف نہیں لیکن انسان کے لیے اس میں اسراف سے کام نہیں لینا چاہیے کہ اپنا سارا وقت کسب و معاش میں صرف کرتا ہے ،اور عبادت او ردیگر دینی اہم کاموں کے لیے وقت نہیں نکالتا اور اسی طرح بازار میں ایک دوسرے کو پکارنا او رشور مچانا بھی مناسب نہیں کیونکہ  یہ نبی ﷺکا طریقہ نہیں تھا ،اور آپ نے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا ،اپنے اپ کو بازاروں میں شور مچانے سے بچا کے رکھو۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص144

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ