السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
والد اپنے بیٹے کے لیے اس لیے بدوعا کرتا ہے کہ بیٹے نے صحیح دین اختیار کیا ہے اور اس کا التزام کرتا ہے تو کیا والد کی بدوعا اس کے حق میں قبول ہو گی ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ولا حو ل ولاقوةالا باللہ۔
اگر معاملہ ایسا ہے جیسے آپ نے ذکر کیا تو اس کی بدوعا قبول نہ ہو گی بلکہ اس کی معصیت لازم ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَإِن جـٰهَداكَ عَلىٰ أَن تُشرِكَ بى ما لَيسَ لَكَ بِهِ عِلمٌ فَلا تُطِعهُما...١٥﴾... سورة لقمان
’’اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھ علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا ‘‘
اور نبی علیہ السلام نے فرمایا)’’خالق کی نافرمانی میں کی کوئی اطاعت نہیں اور اسی طرح فرمایا ،’’نافرمانی میں کۃئی اطاعت نہیں ،اطاعت تو معروف میں ہے ‘‘نکالا اس کو بخاری وغیرہ نے ۔
لیکن والدین کے ساتھ احسان کرتا رہے اور انہیں انتقام کا نشانہ نہ بنائے اسی لیے حدیث میں آتا ہے ،’’جو والدین کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا مطیع ہوگا تو اس کے لیے جنت کےدو دروازے کھلے ہیں اور اگر ایک ہے (اللہ او روالدین میں سے ایک کی )تو پھر ایک دروازہ کھلا ہے ،اور جو والدین کے حوالے سے اللہ کا نا فرمان ہوا ہے تو اس کے لیے آگ کے دروازے کھلے ہیں اور اگر ایک ہے پھر ایک ‘ایک آدمی نے کہا اگر وہ ظلم کریں او فرمایا اگر وہ ظلم کریں ،اگر وہ ظلم کریں ،اگر وہ ظلم کریں ‘‘۔
روایت کیا اسے بیہقی نے شعب الایمان میں اور اسی طرح مشکوٰۃ :(2؍421)میں اس کی سند ضعیف ہے اس میں ابان بن عباس بہت ضعیق ہے اور ابن دھب نے الجامع(1؍14) میں اسی سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ بہتر علم رکھن والا او راپنے بندوں پر ماں باپ سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب