سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(49) عظمت عرش وکرسی

  • 11376
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 4342

سوال

(49) عظمت عرش وکرسی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عرش کرسی کے بارے میں بعض معلومات بیا ن فرمائیں ۔(اخوکم :فردل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولاحولاوالا قوة الا باللہ۔

عرش اللہ عزوجل کی مخلوقات میں سے ایک عظیم الشان مخلوق ہے جس کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن پاک میں کئی بار کیا ہے ،اور ہمارارب تبارک و تعالی اس کے اوپر ہے لیکن اللہ تعالی کو اس کی کوئی حاجت نہیں اور عرش اللہ تعالیٰ کی قدرت سے قائم ہے ،زمین وآسمان کے پیدائش سے پہلے یہ پانی پر تھا اس کے اب چار پائے ہیں جہنیں فرشتوں نے اٹھا رکھا ہے او رقیامت کے دن یہ پائے آٹھ ہو جائیں گے جیسے قرآن ناطق ہے ۔

امام ابن کثیر  نے (4؍71)میں ابن عباس سے روایت نقل کی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،کہ امیہ بن ابی الصلت نے اپنے شعروں  میں یہ شعر جو کہا ہے سچ ہے :

زحل وثور تحت رجل يمينه... والنسر لأخرى وليت مرصد

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جو کہا ہے سچ ہے:

والسمش تطلع کل آخر لیلة... حمراء يصبح لونها يتورد

تأبىٰ فما تطلع لنا في رسلها ... الا معذبة والا تجلد

رسول اللہ ﷺنے فرمایا یہ سچ ہے۔

اور سند اس کی عمدہ ہے نکالا اس کو امام احمد نے ۔

اور یہ تقاضا کرتی ہے کہ عرش کے اٹھانے والے  آج کل چار ہیں اور قیامت کے دن آٹھ ہونگے ۔پھر اس کےمعارض حدیث ذکر کی ہے لیکن اس تعارض کا جواب نہیں دیا۔میں کتا ہوں :اس کی معارض حدیث ضعیف ہے جسے ابن ماجہ نے (؍رقم:193)نے نکالا ہے ابن عباس ﷜س مروی ہے ایک جماعت کے ساتھ بطاء میں تھا اور رسول اللہ ﷺبھی تھے ۔ان پر سے بادل گزرا جسے دیکھ کرآپ ﷺنے فرمایا اس پر تم کیا نام لیتے ہو ،انہوں نے کہا ’’سحاب ‘آپ نے فرمایا ’’مذن ،‘ انہوں نے کہا :ہں مذن بھی کہتے ہیں پھر فرمایا اور’’ عنان ‘‘تو ابو بکر نے فرمایا انہوں نے کہا ہاں ’’عنان‘‘بھی کہتے ہیں پھر فرمایا ،تمہارہ کیا خیال ہے تمہارے او رآسمان کے درمیان کتنی مسافت ہو گی ،وہ کہنے لگے ،ہمیں معلوم نہیں تو فرمایا تمہارے او راس کے درمیان اکہتر یا بختر سال کی مسافت ہے اس کے اوپر ددسرا آسمان بھی اسی مسافت پر ہے اسی طرح سات آسمان گنے ،پھر ساتوے آسمان پر سمندر ہے جس کی نچلی اور اوپر والی سطح کے درمیان اتنی ہی مسافت ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک ہے ۔اس کے اوپر  آٹھ ہرن ہیں کہ جن کے کھروں اور گٹھنوں کے درمیان اتنی مسافت ہے جتنی دو آسمانوں کے درمیان ہے ،ان کی پیٹھوں پر عرش ہے جس کے اوپر اور نیچے کے درمیان اتنی مسافت ہے جتنی ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک ۔پھر اس کے اوپر اللہ تعالیٰ ہیں ۔ابوداؤد:(2؍2724)۔

اور اسی طرح ظلال الجنہ فی تخریج احادیث السنہ رقم :(579)میں وارد ہے اسے ابن اسحاق کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے لیکن اس کے بعض متابع بھی ذکر کیے ہیں ۔مراجہ کریں ،ان فرشتوں کا نام الاکرو ایین ہے اور نبی ﷺنے ان کی عظمت ذکر فرمائی ہے اس حدیث میں ہے جسے امام طبرانی اوسط:(1؍156)میں ہے ھیمی نے المجع :(4؍180۔181)میں ابو یعلی نے (1؍309)میں حاکم نے :(4؍297)میں اور منذری نے الترغیب (2؍47)میں کئی سندوں س بروایت ابوھریرہ ﷜ لائےہیں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :اللہ تعالی ٰ نے مجھے اس مرغ کے بارے میں بیان کرنے کی اجازت دے دی ہے جس کے پیر زمین سے نکل گئے ہیں اور جس کی گردن عرش کے نیچے مڑی ہوئی ہے اور وہ کیتا ہے ’’پاک ہے تو ،ہمارے رب ! تیری کتنی بڑی شان ہے تو اللہ تعالیٰ اسے جواب دیتے ہیں جو میرے نام پر جھوٹی قسم کھا تا ہے وہ نہیں جانتا ‘‘ابو یعلی کی روایت ہے ’’عرش اس کے کندھے پر ہے وہ کہتا ہے ‘‘’’تو پاک ہے تو کہاں تک تھا او رکہاں تک ہو گا‘‘۔

جابر ﷜سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ،اللہ نے مجھے عرش والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کے بارے میں بیان کرنے کی اجازت دے دی ہے اس کے کان کی نرمی اور کندھے کے درمیان سات سو سال کی مسافت ہے ۔

ابوداؤد نے (3؍895)رقم:(4727)میں کدطبرانی نے اوسط میں نکالا ہے اسی طرح امام ذھبی کی المتفی :(6؍2)اور الیمی :(1؍80)میں ہے ۔

اور ایک روایت میں ہے ’’اللہ تعالیٰ کے اکروبین فرشتے ہیں ان کے کان کی نرمی اور ہنسلی کی ہڈی کے درمیان نیچے اترتے ہوئے تیز رفتار پرندے کے لیے سات سو سال کی مسافت ہے ‘‘مراجہ کریں :مشکوٰۃ ((1؍509)رقم:(5728)الحلیہ (3؍158) اور ان دونوں حدیثوں کی تحقیق کے لیے مراجہ کریں :السلسلہ الصحیحہ :(1؍221۔222) رقم :(150۔151)اور عرش شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  کے فتاویٰ میں قول کے مطابق قبے کی طر ح سارے عالم کو گھیرے ہوئے ہے ۔

’’کرسی‘‘ کے بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ عرش کے علاوہ اور عرش اس سے بڑا ہے ۔ جس طرح آثارو اخبار سے ثابت ہوتا ہے ۔ ابوذو غفاری ﷜سے روایت ہے  انہوں نے نبی ﷺسے کرسی کے بارے میں پوچھا تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ ساتویں آسمان او رومین کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے انگشتری کھلے میدان میں او رعرش کی بڑائی کرسی کے مقابلے میں اتنی ہے جتنی کھلے میدان کی ہے اس انگشتری کے مقابلے میں ، روایت کیا اس کو ابن مردود یہ نے جیسے ابن کثیر : (1؍309)میں ہے ۔اور ابن عباس ﷜کہتے ہیں گ’’ کرسی قدموں کی جگہ ہے اور عر شکا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا ۔‘‘ابن کثیر :(1؍309)حاکم مرفوعا و موقوفا (2؍282)اور یہ شیخین کی شرطوں کے مطابق ہے ،امام ذھبی  نے بھی اس کی موافقت کی ہے اور اس کے لفظ ہیں ’’کرسی قدموں کی جگہ ہے او رعرش کا اندازہ نہیں جا سکتا ‘‘۔

مراجعہ کریں کتاب التوحید باب قول  اللہ تعالیٰ :

﴿وَما قَدَرُ‌وا اللَّـهَ حَقَّ قَدرِ‌هِ ...٩١﴾...سورة الانعام

’’اور ان لوگوں نے اللہ کی جیسی قدرکرنا واجب تھی ویسی قدر نہ کی ‘‘

اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ  نے مجموعہ الفتاویٰ (5؍106)میں کہا ہے ’’مسلمانوں کو علم ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کی کرسی میں زمین وآسمان سما جائیں ۔اور اب کرسی عرش کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے کوئی انگشتری کھلےمیدان میں پھینکی ہوئی ہو ،اور عرش اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے اس کی اللہ کی قدرت و عظمت سے کیا نسبت ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص125

محدث فتویٰ

تبصرے