السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لوگوں کی درج ذیل باتوں کا کیا حکم ہے ؟
1۔:گھروں میں مکڑی کے جالے فقر کا سبب اور منحوس ہے ؟
2۔:رات کو آئینے میں نہ دیکھا جائے اس سے منہ سیاہ ہوتا ہے ۔
3۔:بعض لوگ کہتے ہیں میرے پاس فلاں دم کی اجازت ہے اور مجھے فلاں نے اجازت دی ہے اور اس میں الیسے الفاظ ہیں جس ما معنیٰ ہم نہیں سمجھتے ۔مذکورہ بالا کا حکم کیا ہے ۔ (اخوکم :فردل)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ان مسائل کی شرعا کوئی حقیقت نہیں یہ صرف تجربے ہیں اور کسی چیز کے ساتھ بدشگونی پکڑنا درست نہیں اس کا ذکر پہلے ہو چکا مکڑی کا جالا ہو یا کچھ اور ۔ لیکن صفائی اچھی چیز ہے مسلمان کے کپڑے بھی صاف ہونے چاہیے اس کا گھر بھی صاف ہونا چاہیے اورگھروں کے آس پاس کی صفائی کا حکم بھی وارد ہے ۔ دوسرے مسئلے کے بارے میں ہمیں کو ئی دلیل معلوم نہیں بلکہ یو خرافات سے ہیں ائینے میں ہر دیکھ سکتے لیکن شیشے کا زیادہ استعمال عیاشی ہے ۔
تیسر مسئلہ:شرعی دم کی نبی ﷺکی طرف سے ہر کسی کو اجازت ہے تو کسی دوسرے کی اجازت کی ہمیں ضرورت نہیں ۔لیکن میں نے برھان الاسلام الزرنوجی تلمیذ صاحب ھدایہ کی کتاب ’’ تعلیم المتعلم طریق التعلیم میں دیکھا کہ انہوں بہت ساری اشیاء ذکرکی ہیں اور کہا ہے یہ باعث فقر ہیں اور یہ سب آ ثار سے ثابت ہیں –
(لیکن ہم نے یہ آقار میں نہیں دیکھیں )
اور وہ یہ ہیں ننگا سونا ،ننگے پیشاب کرنا ،حالت جنابت میں کھانا ،پہلو پر تکیہ لگا کر کھانا،دستر خواں پر گرے ہوئے کھانے کے اجزاء کی اہانت کرنا ،پیاز اور لہسن کا چلکا جلانا ،تولیے سے گھر کی صفائی کرنا ،گھر میں رات کو جھاڑ ودینا، کچرا گھر میں چھوڑنا ،بڑوں کے آگے آگے چلنا ،والدین نام سے پکارنا،ہر لکڑی سے خلال کرنا ،کیچڑ اور مٹی سے ہاتھ دھونا ،دھلیز پر بیٹھنا ،دروازے کی چوکھٹ کے کسی بازو پر ٹیک لگانا،بیت الخلا ء میں وضوء کرنا ،بدن پر کسی کپڑے کو سینا ،منہ کو کسی کپڑے سے خشک کرنا ،مکڑی کا جالا گھر میں چھوڑنا ،نماز میں سستی کرنا ،فجر کی نماز کے بعد مسجد سے نکلنے میں جلدی کرنا ،صبح سویرے اولاد کے لیے بد دعا کرنا ،برتنوں کو نہ ڈھانپنا،دئے کو پھونک سے بجھانا ،بندھے ہوئے قلم سے لکھنا ،ٹوٹی ہوئی کتگھی سے کنگھی کرنا،والدین کے لیے دعائے خیر ترک کرنا ،بیٹھ کر پگڑی باندھنا ،کھڑے ہو کر شلوار پہننا،بخل اور ضرورت سے کم خرچ کرنا ،اسراف ،سستی کاہلی اور کام چوری کرنا ،میں کہتا ہوں ان میں بعض امور حرام ہیں جیسے نماز میں سستی اسراف وتقتیر،والدین کے لیے دعا نہ کرنا اور تکیہ لگا کر کھانا یہ خلاف سنت ہیں اور باقی تجربات پر مبنی ہیں سنت صحیحہ ت اس میں وارد نہیں اور مانکی والے عبدالوھاب نے ھدیۃ الابرار الی طریقۃ الاخبار میں کتاب الغرائب سے لکھا ہے کہ علی نے فرمابا :پچاس چیزیں فقر کا سبب بنتی ہیں اور یہ ص:(27)پر ذکر کی ہیں لیکن اس کی کوئی سند نہیں تو یہ موضوعات ہیں حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ۔ ھذا وباللہ التوفیق۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب