سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(44) کیا مردے بوقت ویارت زندوں کو دیکھتے ہیں

  • 11371
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3541

سوال

(44) کیا مردے بوقت ویارت زندوں کو دیکھتے ہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مردے وندہ زائرین کو دیکھتے ہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولا حو ل ولاقوة الا باللہ۔

جاننا چاہئے کہ مردوں کے سننے دیکھنے کے لارے میں سوائے دو آدمیوں کے کسی تیسرے کا خبر دینا ممکن نہیں :ایک وہ شخص جو فوت ہو جائے اور برزخ اور احوال قبر کا مشاہدہ کر کے واپس دنیا میں لوٹ آئے اور یہ مسلمان ہو او رکہے کہ مردے سنتے دیکھتے ہیں تو تسلیم کی جا سکتی ہے کیونکہ کہ اس نے خود سنا اور مشاہدہ کیا اور یہ اس کیفیت کے ساتھ کہ دوبارہ زندہ ہو کر آئے اور لوگوں میں زندگی بسر کرے اور برزخ کے احوال اتبتائے یہ تو اب تک سننے میں نہیں آیا ۔ دوسرا وہ شخص جو اللہ اور رسولﷺسے یہ بتائے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‘یا رسول اللہﷺنے اسے کہا کہ مردے سنتے دیکھتے ہیں تو اس شخص سے اپنےقول کے لیے صحیح سند کا مطالبہ کیا جائے گا نہیں تو اللہ تعالیٰ پر اپنی باتیں تھوپنے والوں میں سے ہے ہم نے ابھی ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا جو کہے کہ اس نے خود یکھا یا اپنی اس بات کے لیے سند پیش کرے کہ اللہ تعالی نے فرمایاہے کہ مردے دیکھتے  ہیں یا بنی ﷺنے فرمایا ہو کہ مردے دیکھتے ہیں اگر کسی کو الیسا شخص ملے تو دہ اسے ہمارے پاس لے آئے یا اس سے صحیح سند کا مطالبہ کرے ۔

اور جو امام ابن قیم ﷫ نے زادالمعاد(1؍141۔142)میں کہا ہے کہ جمعہ کی اکتسویں خصوصیت کا بیان :جمعہ کے دن مردوں کی روحیں قبروں کے قریب آتی ہیں اور اپنے زائرین کو اور جو ان پر گزرتے ہوئے کہیں کو پہچاتی ہیں ‘اور دیگر ایام کی بنسبت اس دن میں ان کی معرفت زیادہ ہوتی ہے ‘اس دن میں زندہ لوگ مردوں سے ملاقات کرتے ہیں پھر کہا کہ ابو لتیاح لاحق بن حمید نے کہا کہ مطرف بن عبداللہ بدر میں تھے جب جمعہ آتا تو ابدھیرے میں نکل پڑتے یہاں تک جمعہ کے دن چڑھے قبرستان پہنچ جاتے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ہر قبر والے کو اپنی قبر پر بیٹھے دیکھا لوگ کہتے ہیں کہ یہ مطرف ہے جو جمعہ کو آتا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں سے کہا تم جمعہ کو جانتے ہو انہوں نے کہا ہاں اور ہم جانتے ہیں اس دن پرندے کیا کہتے ہیں میں نے کہا پرندے اس دن کیا کہتے ہیں تو انہوں نے کہا وہ کہتے ہیں :یہ اچھا دن ہے یا اللہ بچا یا اللہ بچا۔

پھر اہل عاصم الجحدری میں سے کسی کا خواب ذکرکہ اس نے اسے خواب میں دیکھا اور اس سے اس کا حال پوچھا تو اس نے کہا میں او رمیرے کچھ ساتھی جنت کے باغات میں سے ایک باغ میں ہم ہر جمعہ آپس میں ملتے ہیں ۔میں نے کہا تم ہماری زیارت کا علم ہوتا ہے تو کہا کہ ہمیں جمعہ کی رات سے ہفتہ کی رات طلوع آفتاب تک علم ہوتا ہے میں نے کہا دوسرے ایام میں یہ کیسے نہیں ہوتا ۔تو کہا جمعہ کے دن کی فضیلت کی وجہ سے۔

پھر محمد بن واسع کے بارے میں ذکر کیا کہ وہ ہر ہفتے کی صبح جبانہ جا کر قبروں کے پاس کھڑے ہو کر انہیں سلام کہتا ہے اور ان کے لیے دعائیں کر کے واپس آجاتا ہے ‘اسے کہا گیا آپ اس دن کو سوموار سے کیوں نہیں بدلتے ‘تو کہا کہ مجھے ﷫پہنچی ہے یہ بات کہ مردے اپنے زائرین کو جمعہ کے دن او رایک دن پہلے او رایک دن بعد میں پہچانتے ہیں اور ذکر کیا ۔

سفیان ثوریسے وہ کہتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے ضحاک سے اس نے کہا جو ہفتے کے دن طلوع آفتاب سے پہلے قبر کی زیارت کرتا ہے تو میت کو اس کی زیارت کا علم ہوتا ہے ۔ کہا گیا یہ کیوں ؟تو کہا کہ جمعہ کے دن کی وجہ سے  التھی ملخصا۔تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے اقوال و آثار میں سرے میں کوئی دلیل نہیں کیونکہ یہ نا معلوم لوگوں کے خواب اور باطل سندیں ہیں اور ان کی نسبت معصوم صاحب جبریل ﷺکی طرف نہیں ہے لہذا اس میں کوئی حجت نہیں یہ تو کسی بڑے عالم کی لغزش یا عقل کے کسی اندھے جاہل کی ضلالت ہے ۔

ابن عابدین نے ردالمختار (1؍604)میں کہا ہے کہ محمد بن واسع نے کہا کہ مردے جمعہ کے دن اور اس سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد اپنے زائزین کو جانتے ہیں پھر کہا کہ شرح لباب المناسک لملا علی قاری میں ہے ،’’پھر آداب زیارت کے بارے میں انہوں نے کہا ہے کہ زائر متوفیٰ ہیں بخلاف پہلی صورت کے کہ اس صورت میں وہ مردے کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے لیکن یہ اس وقت جبکہ ممکن ہو .....الخ۔ہم کہتے ہیں یہ تو محمد بن واسع سے منقول ہے تو وہ کہاں ہے اور کیا محمد بن واسع بنی ہے یا صحابی  یا اسے رحمن رحیم عالم الغیب والشہادہ کی طرف سے وحی ہوتی تھی ۔

علی لقاری کا کہنا ’’ومن آداب الذیارۃ ‘‘یہ جھوٹ ہے کیونکہ یہ بنی ﷺسے منقول ہے نہ صحابہ اور تالبعین سے اور اس جیسے کتنے ہی اقوال کہ جن کے قائل کا پتا نہیں علی القاری کی کتاب میں موجود ہیں اور میں نے علی القاری کی کتابوں کا تجربہ کیا ہے ان سے قاری کو کوئی زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا بلکہ انسان کو ڈال دیتی ہیں اور ان کے بعض اقوال اچھے ہیں تو معلوم ہوا کہ اس کے بارے میں بنی ﷺسے کچھ بھی ثابت نہیں اور اگو کوئی چیز آتی ہے تو ہم قبو ل کر لیں گے ‘اور جو صاحب تحفۃ النصائح نے فارسی زبان میں کہا ہے ’’کنجشک میشئا سد ‘‘یعنی مردہ بیٹھی ہوئی چڑی کو جانتا ہے کہ نر ہے یا مادہ تو میں کہتا ہوں :اس نے کتاب وسنت کی کوئی دلیل پیش کی ہے ؟

اللہ کی قسم نہیں اس قسم کی باتیں تو مشرک بھی اپنے بتوں کے بارہ میں کہتے تھے کہ یہ نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں دیکھتے سنتے ہیں ۔لیکن اس کی دلیل نہیں لاتے تھے۔اللہ تعالی نے ان کی تکذیب کی اور ان کا ٹھکانا جہنم بنایا ۔تو کسی کے قول کا کوئی اعتبار نہیں جب وہ کتاب وہ سنت اور اجماع امت کی دلیل نہ لائے ۔اور ہمارے دین کی تورات بھی دن کی طرح روشن ہے اور ایمان اعمال احکام اخلاق احسان سب اس میں واضح ہیں ۔پس اے مسلمانوں !تم اس عظیم کتاب اور بنی کریم ﷺکی سنت کو چھوڑ کر کن روایات میں کھو چکے ہو ۔اور امام سیوطی نے جو روایات الحادی :(2؍170)میں ذکر ہیں ۔

رہا مردوں کا سننا تو ہم اس کے قائل ہیں اس کے بارے میں بنیﷺسے صحیح احادیث وارد ہیں ۔لیکن اس مصنوعی سننے کو غیر مصنوعی کی طرف نہیں بڑھاتے۔

پہلی حدیث:حدیث فوع العال جو صیحین میں آئی ہے جیسے مشکوٰۃ (1؍24)میں ہے اس سے مردوں کے سننے پر لالت نہیں کرتی کیونکہ حدیث میں ذکر نہیں کہ وہ آواز سنتے ہیں بلکہ جوتوں کی آوازوں کا ذکر ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص چھت پر گھوم رہا ہو تو ہم اس کے جوتوں کی آواز تو سنتے ہیں اس کی آواز نہیں سنتے او ریہ فرشتوں کے جلدی آنے سے کنایہ ہے ۔میں کہتا ہوں ظاہریہی ہے جیسے مولانا رشید احمد گنگوہی کی الکوکب الدری اور المرقاۃ ص:(1؍198)میں ہے یا ہم کہتے ہیں کہ یہ میت کے رکھے جانے کے ساتھ خاص ہے ۔

دوسری حدیث:حدیث قلیب بدر جیسے امام بخاری نے (2؍566)میں نقل کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معجزہ تھا رسول اللہﷺکا جیسے قتادہ﷫نے کہا ،’’اللہ تعالی نے انہیں حسرۃ غضب اور عذاب کے لیے زندہ کو دیا تھا ۔عائشہ رضی اللہ عنھا نے بھی اس کا جواب دیا تھا جو نفس بخاری میں موجود ہے اور کسی نے اس کا انکار نہیں کیا سوائے ہمارے زمانے کے مبتدعین کے جو کہتے ہیں عائشہ رضی اللہ عنھا کے قول پر ہمیں ہنسی کرنی چاہیے اور بعض کہتے ہیں ان کے قول پر تعجب ہے ۔العیاذ بااللہ ۔یہ لوگ اپنی ماں کی بات پر ہنستے ہیں ۔ہم کہتے ہیں وہ ام المومنین ہین ام المبعدعین والفاسقین نہیں اسی لیے تو یہ پلید بات کہتے ہیں ۔

تیسری حدیث:حدیث ابوداؤد (1؍279)اگر کوئی مردے پر سلام کہے جیسے وہ دنیا میں جانتا تھا تو وہ اس کا جواب دیتا ہے ہم کہتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حدیث کو علامہ آلوسی نے ضعیف کیا ہے جیسے روح المعانی :(21؍55)میں ہے بعض ائمہ کبار نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ،میرے نزدیک بھی وہ صحیح ہے جس طرح کہ صحیح ابوداؤد:(2041)میں ہے ۔

ھم کھتے ہیں :یہ صرف  سلام کے ساتھ مخصوص ہے یہاں یہ ذکر نہیں کہ وہ بات کرتا ہے جواب دیتا ہے اور ساری بات سمجھتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اسے سلام نہ سنا کر بعد الموت اس کی عزت افزائی میں اضافہ فرماتا ہے مراجعہ کریں الایات البینات علی سماع الاموات عند الحنفیۃ السادات بتحقیق الشیخ الالبانی رحمہ اللہ .واللہ تعالی اعلم۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص118

محدث فتویٰ

تبصرے