السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نوشہرہ سے ام عمارہ لکھتی ہیں کہ میرے شو ہر نے رمضا ن المبارک میں بحا لت روزہ مجھ سے ہم بستر ی کر لی جب کہ میں نے اسے یا د دلا یا کہ روزہ کی حا لت میں جما ع کر نے سے روزہ ٹو ٹ جا تا ہے لیکن غلبہ شہوت کی وجہ سے وہ با ز نہ آیا اب ہمیں کیا کر نا چا ہیے ؟ ہم دونو ں اس سلسلہ میں پر یشا ن ہیں ۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ شر یعت کی اصطلا ع میں عبا دت کی نیت سے طلو ع فجر تا غروب آفتا ب تک کھا نے پینے اور از ودوجی تعلقا ت سے با ز رہنے کا نا م رو زہ ہے لیکن اگر کو ئی بھو ل کر بےخیا لی میں بحا لت روزہ کھا پی لے یا اپنی بیو ی سے بستر ہو جا ئے تو اس صورت میں نہ فدیہ لا ز م آتا ہے اور نہ ہی کفا ر ہ دینے کی ضرورت ہے اس کا روزہ صحیح ہے حدیث میں ہے کہ اگر کسی نے بھو ل کر کھا لیا یا کچھ پی لیا تو روزہ پو را کر نا چاہیے اللہ تعا لیٰ نے ہمیں کھلا یا اور پلا یا ہے ۔(صحیح بخاری :کتا ب الصوم )
لیکن اگر کسی نے دیدہ دانستہ روزے کی حا لت میں اپنی بیو ی سے جما ع کیا تو روزہ ٹو ٹ جا ئے گا خواہ انزا ل ہو یا نہ ہو اس روزہ کی قضا بھی ہے یعنی رمضا ن کے بعد ایک روزہ رکھنا ہو گا اور اس پر کفا رہ بھی ضروری ہے کفا رہ یہ ہے کہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے جا یئں گے یا ساٹھ مسا کین کو کھا نا کھلا یا جا ئے سید نا ابو ہریرہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہ بیا ن کر تے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فر ما تھے ایک شخص نے آکر عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں تبا ہ بر با د ہو گیا ہو ں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریا فت فر ما یا :" کہ کیسے ؟ اس نے عرض کیا کہ میں نے بحا لت روزہ اپنی بیو ی سے صحبت کر لی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : تمہا رے اس بطو ر کفا رہ آزاد کر نے کے لیے کو ئی غلا م ہے ؟ عرض کیا نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :" کیا تم دو ما ہ کے مسلسل روزے رکھ سکتے ہو اس نے کہا یہ بھی نا ممکن ہے فر ما یا :" سا ٹھ مسا کین کو کھا نا کھلا ؤ ۔(صحیح بخا ری :کتا ب الصو م حدیث نمبر 1936)
روزہ کی حا لت میں بیوی سے ہم بستری کر تے وقت اگر بیوی کا بھی روزہ تھا اور وہ اس پر راضی تھی تو بیو ی کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بھی کفا رہ ادا کر ے اور رمضا ن کے بعد اس روزہ کی قضا بھی دے اگر بیو ی اس صحبت پر راضی نہ تھی جیسا کہ صورت مسئولہ میں ہے مرد نے زبر دستی اس سے صحبت کی تو عورت پر کفا رہ نہیں ہو گا البتہ اسے اس دن کی رمضا ن کے بعد قضا دینا ہو گی حا فظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس صورت میں روزے کی قضا بھی ضروری نہیں ہے کیو ں کہ مرد نے زبر دستی کی ہے لیکن ہتر یہی ہے کہ عورت بھی اس روزہ کی قضا دے یا درہے کہ بیوی کو اس وقت معذور خیا ل کیا جا ئے گا کہ جب شوہر بز رو طا قت زبر دست بیو ی پر حا دی ہو جا ئے یا اسے مارنے پیٹنے پر اتر آئے یا اسے طلا ق کی دھمکی دے دے ایسی صورت میں اسے مجبو ر سمجھا جا ئے گا اس کے با و جو د بھی عورت کو پو ری کو شش کر نی چا ہیے کہ اپنے شو ہر کو سختی کے سا تھ اس عمل سے رو کے البتہ رو زہ کی حا لت میں اپنی بیو ی سے بو س و کنا ر کیا جا سکتا ہے اور اس سے اور بغلگیر ہو نا بھی جا ئز ہے بشر طیکہ خا وند کو اپنے آپ پر کنٹرول ہو بصورت دیگر بحا لت روزہ اپنی بیوی سے بو س و کنا ر کر نا بھی جا ئز نہیں ہے ۔(واللہ اعلم بالصواب)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب