سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(34) انبیاء و اولیاء کے توسل سے دعا مانگنے کا حکم

  • 11359
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 6111

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے مولانا مفتی محمد شفیع کی معارف القرآن سورۃ الانعام میں دیکھا ہے کہ انہوں نے انبیاء و اولیاء کے توسل کو جائز قرار دیا ہے یعنی ان کے وسیلے سے دعا کرنی۔تو ان کا قول  صحیح ہے یا غلط؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولا حول ولا قوةالا باللہ۔

احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ نبی علیہ السلام اللہ سے دعا کرتے ہوئے اس کے اسماء و صفات کے ساتھ وسیلہ پکڑتے تھے۔

اور (بخاری :1/302) اور (مسلم:2/353) نے ان تین آدمیوں  کی حدیث روایت کی جو غار میں داخل ہوئے تھے(اور بھاری پتھر کی وجہ سے غار کا دھانہ بند ہو گیا تھا)

تو انہوں نے اپنے صالح اعمال کے ساتھ توسل کیا تھا‘اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انبیاء  اور صالحین کی دعاؤں کا  ذکر کیا ہے ‘ تو ان میں  سے کسی بھی دعا میں توسل بالذات کا ذکر نہیں اگر اچھی بات ہوتی تو ہمارے رب ہمیں ضرور بتاتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ضرور تنبیہ فرماتے۔ بلکہ صحیح بخاری :(1/137)اور (مشکوٰۃ :1/132) میں ثابت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ بارش کے لیے عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کرواتے خود دعا فرماتے اور عباس رضی اللہ عنہ بھی دعا کرتے اگر توسل بذوات الانبیاء جائز  ہوتا تو عمر رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اس سے غافل نہ رہتے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابتَغوا إِلَيهِ الوَسيلَةَ وَجـٰهِدوا فى سَبيلِهِ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ  ٣٥﴾...سورة المائدة

(مسلمانوں ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب تلاش کرو اور اس کس راہ میں جہاد کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو)

صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور سے لیکر آج تک معاصر مبتدعین کے علاوہ  تمام مفسرین متفق ہیں کہ اس  آیت میں جس توسل کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد ایمان ‘عمل صالح اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے ساتھ توسل مراد ہے۔

اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ آیت کا معنی صالحین کے وسیلے سے اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے‘جیسے کہ (فیض الباری:(2/379) میں  ہے‘(منھاج التأسیس: ص 157) میں ہے کہ علماء میں سے کسی نے یہ ذکر نہیں کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور صالحین کے ساتھ ان کے غیاب میں اور ان کے مرنے کے بعد توسل اور استغفار جائز ہے‘نہ ہی دعاؤں میں اس   قسم کی کسی بات کو اچھا سمجھا ہو ‘دعا عبادۃ کا مغز ہے اور عبادت کی بنیاد توقیف اور اتباع پر ہے اس طرح (شرح عقیدہ طحا ویہ ص:262) میں مذکور ہے۔

امام ابن حجر  رحمہ اللہ تعالیٰ  نے (فتح الباری:2/413) میں عباس رضی اللہ عنہ کی دعا ذکر کی ہے اور زبیر بن بکار نے’’انساب‘‘ میں اس واقعہ میں عبا س رضی اللہ عنہ نے جو دعا کی تھی بیان کی ہے وہ اپنی سند سے بیان کرتے ہیں ‘عمر رضی اللہ  عنہ نے جب عباس رضی اللہ عنہ سے استسقاء کروائی تو انہوں نے یہ دعا کی : ’’اے اللہ کوئی بھی مصیبت بغیر گناہ کے نہیں اترتی اور یہ مصیبت توبہ ہی سے دور ہوتی ہے اور قوم نے مجھے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ رشتہ داری کی وجہ سے تیری طرف متوجہ کیا ہے گناہ والے یہ ہاتھ تیری بارگاہ میں اٹھے ہوئے ہیں اور ہمارے ماتھے توبے کے ساتھ تیرے سامنے جھکے ہوئے ہیں‘ہم پر بارش برسا دے‘‘۔

(در مختار:5/254) میں امام ابو یوسف  رحمہ اللہ تعالیٰ  امام ابو حنیفہ  رحمہ اللہ تعالیٰ  سے روایت  کرتے ہیں اللہ سے اسی کے ہی وسیلے سے دعا کرنی چاہیے۔

ابن عابد ین کہتے ہیں یعنی اس کی ذات ‘اسماء اور صفات کے وسیلے سے اور بحق انبیاء و رسل اور اولیاء کو مکروہ سمجھا۔جن روایات سے وہ استدلال کرتے ہیں ہم انصاف کے ساتھ اس پر اجمالی کلام کرتے ہیں تاکہ تیرے لیے حق واضح ہو جائے‘اور دین قویم میں مزخرف روایات اور غیر صریح دلائل کے ساتھ کوئی شک میں نہ ڈال سکے۔

پہلی دلیل:نابینا کی حدیث جسے ترمذی وغیرہ نے نکالا ہے‘اور (مشکوٰۃ:1/769‘رقم:2695) میں بھی ہے اور صاحب مشکوٰۃ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے متاخرین میں جو اس حدیث کو ضعیف کہتے ہیں درست نہیں اور اس حدیث سے جو توسل بالاشخاص کے لیے استدلال کرتے ہیں وہ بھی درست نہیں یہ تو توسل بدعاء الصالح  کی دلیل ہے۔

جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ تعالیٰ  نے (القاعدۃ الجلیلۃ )اور (التوسل والوسیلہ) میں اس کی تشریح کی ہے‘اور (فتاوٰی:1/158) میں بھی اس کی خوب شرح کی ہے۔

دوسری دلیل: اعرابی کی روایت جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبر پر آ کر آپ کے ساتھ توسل کرتے ہوئے کہا’’اے اس میدان میں دفن ہونے والوں  میں سب سے بڑے اور بہتر‘‘اس کو عتبی نے بغیر سند کے ذکر کیا ہے‘بعض محمد بن حرب ھلالی سے روایت کرتے ہیں بغض کسی اور سے امام بیہقی نے اندھیری سند کے ساتھ شعب الایمان میں ذکر کیا ہے۔اس کی سند منقطع اور اندھیرے گپ والی ہے‘اسی طرح جاہل اعرابی کا عمل دلیل نہیں بن سکتا جیسے(الصارم المنکی ص:202) (فتح المنان ص :352) (منھاج التأسیس ص:169) اور (التبیان ص :178) میں ہے۔

تیسری دلیل:بخاری کی حدیث جو پہلے ذکر ہوئی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عباس رضی اللہ عنہ سے استسقاء کروائی تو اس حدیث سے شر کی توسل کے  لیے استدلال کرنا روسیا مبتدعین کے عجائبات میں سے ہے اگر توسل بالذات اس سے ثابت ہوتا صحابہ رضی اللہ عنہ کو ہرگز نہ چھوڑتے جو قریب ہی تھے –سارے ان کی قبر کے پاس جا کر ان کے توسل کرتے لیکن وہ انہیں  چھوڑ کر عباس کے پاس آتے یہ تو لن کے حق میں کہا ں ان کے خلاف دلیل ہے جیسے فیض الباری :(2/37) میں ہے۔

چوتھی دلیل :اور اسی طرح معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جب انہوں نے یزید بن اسود سے استسقاء کروائی تھی ،جیسے (تاریخ ابن عساکر (1/18-151)  میں صحیح سند سے اور (اصابہ:3/634)  میں ہے –اور اسی طرح ضحاک بن قیس نے بھی یزید بن الاسود سے دعا کروائی تھی جیسے ابن عساکر ہی نے روایت کیا ہے تو یہ سب کچھ بارش کی دعا ہی تھی – تو سل بالذات  تو نہ تھا کہ انہوں نے کہا ہو – اے اللہ میں اس کے جاہ ومرتبہ اور اس کے وسیلے سے سوال کرتا ہو کہ ہماری یہ مصیبت دور فرما،یہ انہوں نے کبھی نہیں کیا –

پانچوین دلیل:وہی ورایت جو گزر چکی بروایت (حاکم :3،334)(فتح الباری :2-399) عمر رضی اللہ عنہ سے رویت ہے کہ انہوں نے جب عباس رضی اللہ عنہ سے استسقاء کروائی تو کہا ’’لوگو !رسول اللہ ﷺ کی اقتداء کرو اور انہیں اللہ کے پاس وسیلہ بناؤ –لیکن  ان کی سند میں اضطراب ہے اور اس میں داؤد بن عطا  نامی راوی متروک ہے جیسے امام ذہبی نے کہا ہے اور اس میں ساعدہ بن عبید اللہ المزنی راوی مجہول ہے جیسے کہ شیخ البانی کی کتاب التوسل میں ہے -

چھٹی حدبث:اور وہ استدلال کرتے عثمان بن جنیف کی حدیث کے ساتھ جس نے ایک شخص کو ضریر البصرہ والی سکھلاتی تھی تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اس کی حاجت پوری کردی تھی –(طبرانی صغیر :ص:103)(کبیر:3/12۔1۔2)

لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ،اس میں شبیب بن سعید ہے جو ضعیف ہے اس حدیث کو ابن السنی نے ص:322) اور (حاکم نے:1/526) پر نکالا ہے لیکن اس قصے کے بغیر تو اس حدیث میں دوسری علت ہوئی-

تفصیل  کے لیے دیکھیں (کتاب التوسل للالبانی اور مجموعۃ الفتاوی ٰ:(1/115)-

ساتویں دلیل :استدلال کرتے ہیں (ابن ماجہ :1/778)اور (احمد:3/21) کی حدیث ہے جس کے لفظ یہ ہیں :جو گھر سے نماز کے لیے نکلے اور کہے اے اللہ اس حق کے ساتھ تجھ سے مانگتا ہوں جو مانگنے والوں کا تجھ پر ہے –الحدیث-

اس میں عطیہ عوفی ہے جو ضعیف ہے (السلسلہ :رقم :24) اور وہ مدلس ہے اور عن کے ساتھ روایت کرتا ہے اور یہ قبیح تدلیس کے ساتھ مشہور ہے ۔

اس حدیث کو (ابن السنی :رقم :82 )دوسری سند کے ساتھ روایت کرتا ہیں جس میں وزاع ہے اور وہ کذاب ہے ۔

آٹھویں دلیل:ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث سے استدلال کرتے ہیں (بحق السائلین علیک )لیکن وہ حدیث بھی بہت ضعیف ہے ۔جیسے (مجمع :10/117 )میں ہے اور کہا ہے کہ اس میں فضالہ بن جبیر ہے اور اس کے ضعف پر اتفاق ہے ۔میں کہتا ہوں :بلکہ وہ متھم ہے ‘ابن حبان نے اسے متھم کہا ہے ‘ابن عدی نے کامل میں کہا ہے کہ اس کی ساری حدیثیں غیر محفوظ ہیں ۔

نویں دلیل :استد لال کرتے ہیں انس بن مالک کی حدیث سے جس میں نبیﷺنے علی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ کے لیے جو فوت ہو گئی تھیں یہ دعا فرمائی :(بحق نبیک  و الانبیاء الذین من قبلی).

(ھیثمی نے 9/ 257 )میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے کبیر اور اوسط میں روایت کیا ہے اس میں روح بن صلاح ہے اور اس میں ضعف ہے ۔الشیخ نے کہا ہے کہ ابو نعیم نے اسے (الحلیہ :3/221)میں روایت کیا ہے اس سند کے ساتھ اور روح کو عدی اور عام علماء نے ضعیف کہا ہے ‘ابن حبان اور حاکم نے اس کی تو ثیق کی ہے لیکن دونوں کا تساھل معروف ہے ۔

پہلی وجہ :اس حدیث کا دارمدار امیہ پر ہے اور حدیث مرسل ہے کیوں کہ امیہ کا صحابی ہونا ثابت نہیں اور نہ ہی روایت کرنا۔(اصابہ:1/133)۔

دوسری وجہ :استفتاح سے مراو ان کی دعا کے ساتھ ابتداء ہے جیسے کہ (نسائی:2 /15)کی صحیح حدیث میں ہے ‘اس لفظ کے ساتھ ‘اللہ اس امت کی مدد فرماتا ہے ان کے ضعیفوں کے ساتھ یعنی ان کی دعا ‘نماز اور اخلاص کے ساتھ ۔(ترغیب منذری:1/54)۔

گیارھویں دلیل:آدم علیہ السلام نے محمد ﷺ کے ساتھ توسل کیا لیکن یہ حدیث موضوع ہے (طبرانی صغیر :ص :207)(مجمع الزوائد :8/253)(حاکم :2/615‘3۔333)(الضعیفہ :1/38‘رقم :25)اور یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے (العبیان )۔

بارھویں دلیل :حدیث کہ وسیلہ پکڑو میرے جاہ کے ساتھ اللہ کے پاس میرا جاہ (مرتبہ )بڑا ہے جو وارد ہے اس لفظ کے ساتھ’’ جب تم اللہ سے مانگو تو میرے جاہ کے مانگو میرا جاہ اللہ کے پاس بڑا ہے ‘‘یہ خبر باطل ہے کتب حدیث میں اس کی کوئی اصل نہیں ۔(السلسلہ :رقم : 22)۔

تیرھویں دلیل :وہ حدیث جس کو ابن حجر نے (فتح الباری :2/397)میں نقل کیا ہے جس کی عبارت یہ ہے ’’ روایت کیا ہے ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ مالک الدار سے جو عمر رضی اللہ عنہ کے خازن تھے ۔ وہ کہتے ہیں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگوں پر قحط آیا ۔ایک آدمی رسول اللہ ﷺکی قبر کے پاس آیا اور کہنے لگا :اے اللہ کے رسول اپنی امت کے لیے بارش طلب فرمائیں وہ تو ہلاک ہو گئے تو شخص کو خواب میں کہا گیا :عمر کے پاس جاؤ....الحدیث۔

سیف نے فتوح میں روایت کیا ہے جس نے خواب دیکھا تھا وہ بلال بن  الحارث نامی ایک صحابی تھے ۔ یہ حدیث متعدد وجوہ سے توسل کے لیے حجت نہیں :

پہلی وجہ:بعض علماء نے کہا ہے کہ مالک الدار مجہول ہے‘بناء پر توثیق کے جیسے کہ معروف ہے وہ شخص نبیﷺ کی قبر کے پاس آیا تھا وہ مجہول ہے اور سیف نے الفتوح میں کہا ہے کہ وہ بلال تھے‘اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ سیف کذاب  اور قابل حجت نہیں پس جہالت اپنے حال پر رہی۔

دوسری وجہ:اس کا باب توسل سے تعلق نہیں کیونکہ اس نے یہ نہیں کہا کہ میں نبیﷺ کے وسیلے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں‘بلکہ یہ نبیﷺ سے سوال کرنت ہے یہ دوسرا مسئلہ ہےاور وہ یہ کہ کیامردوں سے دعا مانگنا جائز ہے؟تو ہم کہتے ہیں‘علماء تو درکنار کسی بھی مسلمان کے نزدیک یہ جائز نہیں‘مردوں سے دعا مانگنا شرک محض ہے۔

تیسری وجہ:یہ مخالق ہے اس چیز کا جو شرع سے ثابت ہے اور وہ ہے آسمان سے بارش کے لیے استسقاء کے وقت نماز پڑھنی مستحب ہے جو احادیث میں تواتر سے ثابت ہے اور نبیﷺ نے ایسے وقت میں انبیاء اور صالحین کی قبروں پر آ کر دعائیں مانگنا مشروع نہیں کہا‘کیا مسلمان ہونے کے بعد تمھیں وہ کفر کا حکم دیں گے۔

(ھیثمی نے مجمع الزوائد:3/125) میں کہا ہے کہ مالک الدار کو نہیں پہچانتا۔

(ابن حزم نے الجرح والتعدیل :4/213) میں اس کا ذکر کر کے کوئی جرح و تعدیل نہیں کی تو یہ اس کی جہالت پر دلالت کرتا ہے۔

چوتھی وجہ:یہ خواب ہے جو حجت نہیں۔

چودھویں دلیل:حدیث جز ابو الجوزاء سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اہل مدینہ سخت قحط سے دو چار ہوئے لوگوں نے عائشہ  رضی اللہ عنہا سے شکا یت کی تو آپ نے کہا نبیﷺ کی قبر جا کر دیکھو اور اس کے اوپر آسمان کی طرف چھت کھولدو تاکہ قبر اورآیمان کے درمیان چھت حائل نہ رہے‘راوی کہتا ہے انہوں نے اسی طرح کیا تو ہم پر خوب بارش ہوئی یہاں تک کہ گھاس اُگی اور اونٹ کھا کھا کے اتنے موٹے ہو گئے کہ چربی چڑھ گئی اوراس سال کا عام الفتق نام پڑ گیا۔

اس حدیث کے حجت نہ ہونے کی متعدد وجو ہ ہیں:

پہلی وجہ:عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں نبیﷺ کے گھر کی چھت میں سوراخ نہیں تھا۔

دوسری وجہ:اس کی سند میں سعید بن زید ہے او ر اس میں ضعف ہےاور اس میں ابو نعمان ہے جو محمد بن الفضل ہے عارم کے نام سے معروف تھا یہ مختلط تھا۔

تیسری وجہ:اس حدیث میں ابو الجوزاء جس نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہیں سنا۔

چوتھی وجہ:اگر یہ حدیث ثابت ہو بھی جائے تو اس میں توسل نہیں بلکہ اس میں قبر کو آسمان کی طرف ظاہر کرنا ہے تاکہ اللہ کے فضل و احسان سے بارش ہو۔تو کیا انہوں نے کو ئی توسل  بالذات کیا؟ہمارا ان مبتدعین کے ساتھ نزاع اس دعا میں ہے جس میں توسل  بالذات ہو اور اس حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں۔

مراجعہ کریں (التوسل انواع و احکامہ :للشیخ ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ)۔

پندرھویں دلیل: وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں:

﴿وَكانوا مِن قَبلُ يَستَفتِحونَ عَلَى الَّذينَ كَفَر‌وا فَلَمّا جاءَهُم ما عَرَ‌فوا كَفَر‌وا ...٨٩﴾...سورة البقرة

کہ کہتے ہیں ‘’’وہ کہا کرتے تھے ہم بحق نبیﷺ تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہماری مدد فرما‘‘(قرطبی)۔

جواب   اسکا یہ ہے کہ یہ آیت تین تاویلوں کا احتمال رکھتی ہے جسے علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں ذکر کیا ہے تو احتمال کے ہوتے ہوئے استدلال نہیں ہو سکتا‘اور اسی طرح اکثر مفسرین یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیے سے کس نبی کو بھیج کر ان کی مدد کرنے کا سوال کرتے تھے تاکہ اس کی معیت میں کفار سے قتال کریں۔

اور ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہودیوں کی یہ دعا اللہ تعالیٰ نے قبول نہیں فرمائی کیونکہ یہودی  اکثر زمانے میں مغلوب ہی رہے ہیں۔اگر تم یہ کہو کہ ہم سے پہلے لوگوں کی شریعت ہمارے لیے بھی شریعت ہے تو ہم کہتے ہیں یہ علی الاطلاق صحیح نہیں ہے بلکہ ان کی وہ شریعت ہمارے لیے مشروع ہے جس کا ذکر مقام مذمت ہن ہو۔اور یہاں اس آیت میں ان کی قباحتوں ‘بدعتی دعاؤں اور کفری افعال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تردید فرمائی ہے ‘تو وسیلہ بالذات کے باب میں کوئی صریح دلیل نہیں بلکہ سب کی سب مجمل اور نا قابل استدلال واہی احادیث ہیں۔

اور جو مولانا رشید احمد نے(احسن الفتاوٰی1/332) میں مطلق وسیلے کے جواز کے دلائل ذکر کئے ہیں خواہ وسیلہ بالذوات ہو یا وسیلہ بالاعمال الصالحہ خواہ اس سے ہو یا کسی اور سے یہ سب حماقت پر مبنی استدلالات  ہیں جس کا علم سے دور کا واسطہ نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص96

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ