السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محمد علی خرید اری نمبر 5383لکھتے ہیں کہ جو شخص کسی عذر کی بنا پر رمضا ن المبا رک کے روزے نہ رکھ سکے وہ تو رمضا ن کے بعد روزوں کی گنتی پوری کر ے گا لیکن جو شخص دائمی مر یض ہو ا اور وہ ایک روزہ بھی نہیں رکھ سکتا اس کے متعلق شر یعت کا کیا حکم ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت نے ہمیں احکا م و فرائض بر وقت ادا کر نے کی تلقین کی ہے لیکن اگر کو ئی شر عی عذر ہو تو مقررہ وقت کے بعد بھی ادا سکتے ہیں کسی فرض کو بروقت بجا لا نا ادا اور وقت گزرنے کے بعد ادا کرنا قضا کہلا تا ہے روزہ کے متعلق بعض عذر ایسے ہیں جو قضا کا با عث ہیں اگر قضا کی طا قت یا فرصت نہیں تو بعض عذر فد یہ کا مو جب ہیں دوران سفر روزہ افطا ر کر نے کی اجا زت ہے لیکن جتنے روزے دوران سفر نہ رکھے جا سکیں وہ بعد میں رکھ لیے جا ئیں ارشا د با ری تعالیٰ: " کہ جو شخص بیما ر ہو یا سفر پر ہو ا سے دوسر ے ایا م میں گنتی کو پو را کر نا ہو گا ۔(2/البقرۃ:184)
لیکن اگر دورا ن سفر میں روزہ رکھنے کی مشقت نہیں ہے تو روزہ رکھ لینے بہتر ہے اسی طرح اگر معمولی بیما ری ہے اور روزہ رکھنے میں کو ئی وقت نہیں تو روزہ رکھ لینا بہتر ہے اور اگر روزہ رکھنے سے مشقت ہو تی ہے یا بیما ری بگڑنے کا اندیشہ ہے تو افطا ر کیا جا سکتا ہے قرآن کر یم نے اجا ز ت دی ہے کہ دورا ن بیما ری جتنے روزے رہ جا ئیں انہیں بعد میں رکھ لیا جائے صروت مسئولہ کے مطا بق اگر کو ئی دائمی مریض ہے اور روزہ رکھنے کی ہمت نہیں ہے تو قضا کے بجا ئے وہ فدیہ ادا کر دے یعنی کسی دوسرے شخص کو روزے رکھوا دے ارشا د با ری تعا لیٰ ہے کہ "جو روزہ کی طا قت نہیں رکھتے وہ فد یہ کے طور پر ایک مسکین کو کھا نا کھلائے۔(12البقرہ:184)
لہذا شوگر وغیرہ کے مر یض جو روزہ کی ہمت نہیں رکھتے انہیں ایک ما ہ تک کسی غریب اور نا دار کو فدیہ ادا کر نا ہو گا یعنی روزانہ اوسط درجے کا حسا ب لگا کر ایک ما ہ کا خرچہ اس کے حوالے کر دیا جا ئے یہ بھی یا د رہے کہ غریب اور نا دار کئی ایک لو گو ں سے فدیہ لے سکتا ہے اس میں شرعاً کو ئی قبا حت نہیں اگر کو ئی شخص اتنا بو ڑھا ہو گیا ہے کہ روزہ نہیں رکھ سکتا تو وہ بھی فدیہ دے گا جیسا کہ حضرت ابن عبا س رضی ا للہ تعالیٰ عنہ فر ما تے ہیں :" کہ بہت بو ڑھے کے لیے رخصت ہے کہ وہ خو د روزہ رکھنے کی بجا ئے ہر دن ایک مسکین کو دوقت کا کھا نا دے دے اور اس پر قضا نہیں ہے ۔(مستدرک حا کم :1/44)
حا ملہ اور دودھ پلا نے والی عورت کو اگر روزہ رکھنے سے اپنی یا بچے کی صحت کے خرا ب ہو نے کا اندیشہ ہو تو اسے بھی روزہ افطا ر کر نے کے اجازت ہے عذر ختم ہو نے کے بعد قضا دینا ضروری ہے اگر آیند ہ رمضان تک قضا دینے کی فرصت نہ ہو تو اسے چا ہیے کہ فدیہ دے کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جا ئے حدیث میں ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے مسافر روزہ اور نصف نماز معا ف کر دی ہے اسی طرح حا ملہ اور دودھ پلا نے والی کو بھی روزہ نہ رکھنے کی اجا زت دی ہے ۔(ابو داؤد الصیام 2408
واضح رہے کہ صحت خرا ب ہو نے کا اندیشہ کسی اما نت دار تجر بہ کا ر اور سمجھ دار ڈا کٹر کی رپو رٹ پر مو قو ف ہے اپنی صوا بدید کے مطا بق عمل نہ کیا جائے۔(واللہ اعلم )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب