السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جھنگ سے اللہ دتہ دریا فت کرتے ہیں کہ مندرجہ ذیل حدیث کا حوالہ درکا ر ہے : "نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جا بر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ نے با دل کی وجہ سے غروب افتا ب سے پہلے ہی روزہ افطا ر کیا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ ہم عید کے بعد اس روزہ کی قضا دیں گے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مطلع ابر آلو د ہو نے کی وجہ سے غروب آفتا ب سے قبل روزہ افطا ر کر نے کا ذکر مندرجہ ذیل حدیث میں ہے :"حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی ا للہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبا رک میں ایک دن جب کہ با د ل چھا ئے ہو ئے تھے ہم نے رو زہ افطا ر کیا پھر سورج نکل آیا ۔(صحیح بخا ری :کتا ب الصوم )
اس حدیث کے الفا ظ اسی قدر ہیں اس میں حضرت جا بر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ اور عید کے بعد قضا دینے کا ذکر خو د سا ختہ ہے اس طرح روزہ افطا ر کر لینے کے بعد اس کی قضا دینے کے متعلق علما کا اختلاف ہے مذکورہ با لا روایت کا کو ئی راوی ایک دوسر ے راوی سے پو چھتا ہے کہ کیا انہیں قضا دینے کا حکم دیا گیا تھا تو اس نے جو اب دیا کہ قضا دینا ضروری ہے قضا دینے کے متعلق یہ فیصلہ ان کا ذاتی رجحا ن ہے حدیث کا حصہ نہیں ہے چنانچہ محدث ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ یہ حدیث بیان کر نے کے بعد لکھتے ہیں ۔:
"حدیث میں یہ با ت نہیں ہے کہ انہیں قضا دینے کا حکم دیا گیا تھا بلکہ یہ ہشا م راوی کا اپنا قول ہے میر ے نز دیک یہ ثا بت نہیں ہے کہ ایسی صورت حال کے پیش نظر انہیں قضا دینا پڑے گی جب انہو ں نے افطا ر کیاتو ان کے یقین کے مطا بق سورج غروب ہو چکا تھا اگر انہیں بعد میں معلو م ہو ا کہ سورج غرو ب نہیں ہو ا تھا تو اس صور ت حا ل کے متعلق ہما رے لیے حضرت عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کا فر ما ن مشعل راہ ہے کہ ہم قضا نہیں دیں گے اس میں ہما را کیا قصور ہے ۔(صحیح ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ 3/339)
اگر چہ حضرت عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ سے اس کے بر عکس روایا ت بھی ملتی ہیں لیکن وہ پا یہ ثبو ت کو نہیں پہنچتیں تا ہم ہما رے نز دیک اس قسم کے روزہ کی قضا ضروری نہیں ہے کیو نکہ اس میں انسا ن کے ارادہ اور اختیا ر کو دخل نہیں ،(واللہ اعلم با لصواب )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب