السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یہاں سے حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کی زبانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام بھیجنا جائز ہے؟اور غیر کی طرف سے طواف و عمرہ جائز ہے؟ا خوکم:عطاء۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ولا حول ولا قوة الا باللہ۔
سلام کا بھیجنا سنت صحیحہ سے ثابت نہیں بلکہ یہ کام فرشتے کرتے ہیں ابن مسعو د رضی اللہ عنہ سے حدیث ثابت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ان اللہ و ملائکة سیا حین في الارض یبلغون من امتي السلام»
(زمین میں اللہ کے سیاح فرشتے ہیں جو میری امت سے سلام پہنچاتے ہیں)۔
نسائی:(1/119)‘دارمی:(2/225‘رقم :2777)‘الحاکم: (2/421)‘مشکوٰۃ: (1/86) ‘اور اس کی سند صحیح ہے‘احمد:(1/387-441-452)۔
دوسری حدیث میں ہے:
«وَصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ كُنْتُم»
(مجھ پر درود پڑھ‘تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارا درود مجھے پہنچتا ہے)‘سند اس کی حسن ہے ۔ نسائی ‘مشکوٰۃ:(1/86)
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سلام بھیجنے کی ترغیب نہیں دی البتہ درود بھیجنے کی ترغیب دی ہے ‘ہم جہاں کہیں بھی ہوں جیسے کہ حجۃ النبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں ہے اور جابر نے اسے روایت کیا ہے ص :137‘ حجاج اور زائرین کے ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرضیاں بھیجنا بدعت ہے۔
غیر کی طرف سے عمرہ اور طواف کرنے کا حکم ہم آئندہ مسائل میں ذکر کریں گے۔
اصح یہی ہے کہ والدین کے علاوہ ایصال ثواب کسی کے لیے سنت میں وارد نہیں‘اور عبادات میں قیاس جائز نہیں جیسےپیچھے تفصیل سے گزر گچکا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب