السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ساہیوال سے عبد القدوس لکھتے ہیں کہ ہما رے ہا ں عا م طور پر غرو ب آفتا ب کے بعد احتیا طاً دو تین منٹ روزہ افطا ر کر نے میں انتظا ر کیا جا تا ہے اس "احتیا ط " کی شرعاً کیا حیثیت ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث کے مطا بق افطا ری کا وقت غرو ب آفتا ب ہے اگر کسی شرعی عذر کی بنا پر کبھی کبھار ایک دومنٹ تا خیر ہو جا ئے تو چنداں حرج نہیں البتہ احتیا ط کے پیش نظر ہمیشہ تا خیر کرنا مکرو ہ بلکہ ممنو ع ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فر ما ن ہے "جب ادھر رات آجا ئے اور ادھر دن چلا جا ئے اور سورج بھی غروب ہو جا ئے تو روزے دار کو روزہ افطا ر کر دینا چا ہیے ۔(صحیح مسلم :الصیا م1100)
حضرت ابو عطیہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہ فرما تے ہیں کہ میں اور حضرت مسروق ام المو منین عا ئشہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا کے پا س آئے اور عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین میں سے دو ایسے ہیں کہ ایک جلدی روزہ افطا ر کر تے ہیں اور جلدی نماز پر ھتے ہیں جب کہ دوسرا تا خیر سے روزہ سے کھو لتے ہیں اور نماز بھی دیر سے پڑھتے ہیں ( ان میں کو ن سنت کے مطا بق عمل کرتا ہے)حضرت عا ئشہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا نے دریا فت فر ما یا کہ جلدی کر نے والا کو ن ہے ؟ ہم نے عر ض کیا کہ وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی ا للہ تعالیٰ عنہ ہیں اس پر حضرت عا ئشہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا نے فر ما یا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح عمل کر تے تھے یعنی ان کا عمل سنت کے عین مطا بق ہے دوسر ے صحا بی حضرت ابو مو سیٰ اشعری رضی ا للہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔(صحیح مسلم : الصیا م 1099)
افطا ری جلدی کر نے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :" کہ لوگ اس وقت تک خیر و بر کت میں رہیں گے جب تک وہ افطا ری کر نے میں دیر نہیں کر یں گے ۔ (صحیح بخا ری ،الصوم 1957)
ابن حبا ن رحمۃ اللہ علیہ کی روایت سے معلو م ہوتا ہے کہ غروب آفتا ب کے بعد احتیا ط کا بہا نہ بنا کر دیر کر نا یہود و نصار یٰ کا شیو ہ ہے چنانچہ فر ما ن نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ یہو د نصا ریٰ تا خیر سے افطا ر کر تے ہیں تم روزہ جلد افطار کیا کرو ۔ (صحیح ابن حبا ن رحمۃ اللہ علیہ :6/209)
بلکہ ایک روایت میں مزید وضا حت ہے کہ میری امت کے لو گ اس وقت تک میر ے طریقے پر گا مزن رہیں گے جب تک وہ روزہ افطا ر کر نے کے لیے ستا روں کے چمکنے کا انتطا ر نہیں کر یں گے ۔(بیہقی4/238)
احا دیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحا ب کا ایک امتیا زی وصف با یں الفا ظ بیان ہو ا ہے کہ وہ افطا ری جلدی کر تے اور سحری دیر سے تنا ول فر ما تے تھے ۔(جا مع ترمذی :کتا ب الصوم )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روزہ کے متعلق افطا ر کا عمل اس قدر جلدی ہو تا کہ آپ دوسرو ں کے احتیا طی رویہ کو مسترد فر ما دیتے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرا ہ ماہ رمضا ن میں سفر کر رہے تھے جب سو رج غروب ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" کہ سواری سے اتر کر ستو تیا ر کرو " عرض کیا گیا کہ ابھی تو دن کی روشنی نظر آرہی ہے زرا تا خیر کر لی جا ئے بہتر ہو گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ": کہ سواری سے اتر کر ستو تیا ر کرو چنا نچہ آپ کے لیے ستو تیار کیے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نو ش فر ما یا اس کے بعد وہی الفا ظ استعمال کیے جو پہلے بیا ن ہو چکے ہیں (صحیح مسلم ۔الصیا م 110)
ان احا دیث کے پیش نظر ہمیں چا ہیے کہ جب سو رج غروب ہو نے کا اطمینان ہو جا ئے تو روزہ افطا ر کر دینا چا ہیے احتیا ط کے پیش نظر دیر کرنا صحیح نہیں ہے اسے یہو د و نصا ریٰ کی علا مت بتا یا گیا ہے ۔(واللہ اعلم با لصواب )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب