السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قربانی کا جا نو ر خرید نے کے بعد کسی بہتر جا نو ر سے تبا دلہ کرنا یا اسے فرو خت کر کے اس سے بہتر جا نو ر خرید نا شر عاً جا ئز ہے یا نہیں ؟(ایک سا ئلہ خریداری نمبر 3480)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ کے متعلق متقدمین میں اختلا ف پا یا جا تا ہے چنانچہ ائمہ ثلاثہ یعنی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بہتر جا نو ر سے تبا د لہ کیا جا سکتا ہے جبکہ امام شا فعی رحمۃ اللہ علیہ قر با نی کے جا نو ر کو وقف کی طرح خیا ل کر تے ہو ئے اسے فرو خت کر کے یا کسی اور طر یقہ سے تبا دلہ کو جا ئز خیا ل نہیں کر تے جیسا کہ فقہ القدیم میں اس کی تفصیل ملتی ہے ۔(مغنی ابن قدامہ ۔ج 13ص353)
ہما رے ہا ں بعض علما ء اسے نا جا ئز کہتے ہیں کچھ تو اس قدر انتہا پسند ہیں کہ قر با نی کا جا نو ر خر ید نے کے بعد کو ئی عیب پڑ جا نے کی صورت میں بھی اسے تبدیل کر نے کی اجا زت نہیں دیتے بلکہ اسے ذبح کر دینے کی تلقین کرتے ہیں حا لا نکہ جس حدیث ابی سعید رضی ا للہ تعالیٰ عنہ (مسند امام احمد :ج 3ص32) سے یہ مسئلہ کشیدکیا ہے وہ سخت ضعیف ہے کیو ں کہ اس میں ایک راوی جا بر جعفی انتہا ئی کمز ور اور دوسرا اس کا شیخ محمد بن قرظہ مجہول ہے ۔(سبل السلام ج3 ص94)
اس بنا پر ہم اس مسئلہ کوذرا تفصیل سے بیا ن کر تے ہیں جو حضرات قربانی کے جا نو ر کو فرو خت کر کے بہتر جا نو ر خریدنے یا کسی بہتر سے تبا دلہ کے قا ئل ہیں ان کے دلائل یہ ہیں حضرت عروہ با رقی رضی ا للہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (قر با نی کی) بکری خریدنے کے لیے ایک دینا ر دیا انہو ں نے ایک دینا ر سے دو بکر یا ں خریدلیں ان میں سے ایک کو دینا ر سے فروخت کر دیا پھر جب ایک دینا ر اور بکری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س لا ئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے فرو خت میں بر کت کی دعا فر ما ئی ۔(صحیح بخا ری :المنا قب 3642)
بعض روایا ت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قر با نی کا جا نو ر خرید نے کے لیے بھیجا تھا لیکن راوی نے بعض اوقات قر با نی کے بجا ئے صرف بکر ی خریدنے کا ذکر کیا ہے ۔
(مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ :ج 4ص 375)
اس روا یت کو ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ :البیوع3384ترندی :البیوع 1258اورابن ما جہ :الصدقات2402میں بھی بیان کیا گیا ہے ان روایات سے معلو م ہو تا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قر با نی کی بکری خرید نے کا حکم دیا تھا سفیا ن راوی اس کی وضا حت کر تے ہیں کہ وہ آپ کے لیے بکر ی خرید ے گو یا وہ قر با نی ہے ،
(صحیح بخا ری : المنا قب 3643)
اس مو قف کی تا ئید میں حضرت حکیم بن حز ام رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کی رو ایت بھی پیش کی جا تی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی قر با نی خر ید نے کے لیے ایک دینا ر دیا انہو ں نے اس کے عو ض ایک مینڈھا خریدا واپسی پر را ستہ میں اسے دودینا ر کے عوض فرو خت کر دیا پھر منڈی سے ایک دینا ر کے عو ض قر با نی کا جا نو ر خرید کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قر با نی کا جا نو ر اور دینا ر دو نو ں پیش کر دئیے آپ نے اس دینا ر کو بھی بطو ر صدقہ خر چ کر دیا اور حکیم بن حزا م رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کے لیے اس کی تجا رت میں خیرو بر کت کی دعا فر ما ئی ۔(ابو داؤد۔البیوع3386)
بعض روا یا ت میں ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حکیم بن حز ام رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ قر با نی ذبح کر دو اور منا فع کے دینا ر کو اللہ کی راہ میں خر چ کر دو۔(ترندی :البیو ع 1257)
اس مقا م پر یہ وضا حت کر دینا ضروری ہےکہ ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی روا یت میں ایک راوی مجہول ہے جبکہ ترندی کی رو ایت میں انقطا ع ہے جیسا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے خو د بیا ن کیا ہے تا ہم اس قسم کی روا یت- کو بطو ر تائید پیش کیا جا سکتا ہے ۔ علا مہ بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تا لیف میں ایک با ب با یں الفا ظ قا ئم کیا ہے : "کہ جو شخص قر با نی کا جا نو ر خرید نے کے بعد اسے تبدیل کر لیتا ہے پھر اس کے تحت ایک روایت لا ئے ہیں کہ حضرت ابن عبا س رضی ا للہ تعالیٰ عنہ سے ایک شخص کے با ر ے میں سوال ہو ا جو قر با نی کا جانور خریدتا ہے ھر اسے فروخت کر کے اس سے مو ٹا تازہ خریدنا ہے تو آپ نے رخصت کا ذکر فر ما یا اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔(مجمع الز وائد :21/4)
ان روا یا ت کے پیش نظر قر با نی کا جا نو ر فرو خت کر کے اس سے بہتر خرید ا جا سکتا ہے اور کسی بہتر جا نو ر سے اس کا تبا دلہ کیا جا سکتا ہے اور جو حضرا ت قر با نی کا جا نو ر متعین کر نے کے بعد اسے فرو خت یا تبا دلہ کو نا جا ئز کہتے ہیں ان کا مو قف ہے کہ قر با نی چو نکہ وقف کی طرح ہے اس لیے اس میں خریدو فرو خت یا تبا دلہجیسا تصرف درست نہیں ہے چنا نچہ حدیث میں حضرت عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ نے ھدی کے طور پر عمدہ اونٹ کا انتخاب کیا بعد میں کسی نے اس کی تین سو دینا ر قیمت لگا دی حضرت عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س آئے اور بتا یا کہ میں ایک عمدہ اونٹ ھدی کے طور پر مکہ مکرمہ بھیجنے کا پرو گرا م بنا چکا ہو ں اب مجھے اس کا تین سو دینا ر ملتا ہےکیا میں اسے فرو خت کر کے مز ید اونٹ خرید سکتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" نہیں تم اسی کو ذبح کر و ۔ (ابو داؤد:المناسک)
اس روایت کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیا ن کیا ہے لیکن اس میں عمدہ اونٹ کے بجا ئے سختی اونٹ کا ذکر ہے جس کی گردن ذرا لمبی ہوتی ہے اور وہ بھی بہترین اونٹوں میں شما ر ہو تا ہے ۔(مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ج 4 ص 145)
مثقی الاخبا ر میں اس حدیث پر با یں الفا ظ عنوان قا ئم کیا گیا ہے "ھدی کو متعین کر نے کے بعد اسے بد لنا جا ئز نہیں ہے ۔چنانچہ علا مہ شو کا نی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح کر تے ہو ئے لکھتے ہیں :" کہ یہ حدیث اس با ت پر دلا لت کر تی ہے کہ ھدی کی بیع درست نہیں ہے خوا اس جیسی یا اس سے بہتر کا تبادلہ مقصود ہو ،(نیل الاطار :ج 5ص 185)
چنانچہ قر با نی بھی ھدی کی طرح ہے اس بنا پر قر با نی کا جا نو ر بھی فروخت یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا ان حضرات کا کہنا ہے کہ امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ بیان کردہ حدیث اس مسئلہ پر واضح نہیں ہے نیز محدثین کے قا ئم کر دہ معیا ر صحت پر بھی پو ری نہیں اتر تی کیو ں کہ اس میں ایک راوی شبیب بن غر قدہ کہتے ہیں کہ میں نے جی یعنی قبیلہ سے سنا جو عروہ با رقی رحمۃ اللہ علیہ سے بیا ن کر تا ہے اس قبیلہ کے افراد کی تعیین نہیں ہو سکی لہذا اس "جہا لت "کی وجہ سے یہ حدیث قا بل استدلا ل نہیں ہے چنا نچہ چند ایک ائمہ حدیث نے اس حدیث پر اعترا ضات کیے ہیں جن میں علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ سر فہرست ہیں ۔(فتح البا ری :ج 6/ص774)
جہاں تک بخا ری کی حدیث کے ضعف کا مسئلہ ہے اس کے متعلق ہماری گزا رش ہے کہ محدثین کے فیصلے کے مطا بق جس راوی کو امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح میں لا ئے ہیں وہ جرح و تعد یل کا پل عبو ر کر چکا ہے یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق خو ب چھا ن پھٹک کر نے کے بعد اسے اپنی صحیح میں لا ئے ہیں لہذا اس حدیث پر بلا وجہ اعترا ض درست نہیں ہے ہا ں علا مہ خطا بی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو غیر متصل قرار دیا ہے اس کا جوا ب حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے کہ جب سماع کی تصریح موجو د ہے تو اسے مرسل یا منقطع کیو نکر کہا جا سکتا ہے بلکہ یہ روایت ایسی متصل ہے جس کی سند میں ایک مھم راوی ہے پھر اس "مھم حی " کے متعلق لکھتے ہیں کہ انہو ں نے ایک جما عت سے سنا ہے کہ جس کے کم از کم تین افراد ہیں ۔(فتح البا ری۔ج6ص774)
پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ کی شر ط کے عین مطا بق ہے کیو ں کہ عا م طور پر ایک قبیلہ کا جھو ٹ پر اتفا ق کر لینا نہ ممکن ہے ۔(فتح البا ری :ج6ص775)
پھر اس حدیث کے متا بعا ت و شوا ھد بھی ملتے ہیں جو اس کی تا ئید کر تے ہیں جن میں "حی"کے بجا ئے ابو لبید لما زہ بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ حضرت عروہ بارقی سے نقل کر تے ہیں ۔ (مسند امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ۔ج 4ص376)
امام مندری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پر بحث کر نے کے بعد لکھتے ہیں کہ امام تر مذی رحمۃ اللہ علیہ نے بکر ی خریدنے والی اس روایت کو ابو لبید لما ذہ بن زیا د رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کیا ہے جو حضرت عروہ با رقی رحمۃ اللہ علیہ سے بیا ن کر تے ہیں اس طریق سے یہ روایت حسن قرار پا تی ہے ۔(مختصر ابی داؤد ،ج5ص51)
اس متا بعا ت کے علا وہ حضرت حکیم بن حز ام رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث کو بطو ر شا ھد پیش کیا جا سکتا ہے الغرض یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کسی طرف سے ضعف کا شائبہ تک نہیں ہے البتہ ما نعین کی طرف سے حضرت عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کی جو حدیث پیش کی گئی ہے اس کے متعلق ہما ر ی گزارشا ت حسب ذیل ہیں حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے نا قابل حجت ہو نے کی طرف اشا رہ کیا ہے فر ما تے ہیں "کہ محدث ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں نقل کیا ہے لیکن اس سے حجت لینے میں وقف کیا ہے ۔(التہذا یب : ج2ص121)
اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس روایت میں ایک راوی جہم بن جا رود ہے جو حضرت سا لم بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے بیا ن کر تا ہے اس کے متعلق امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں "کہ اس جہم کا حضرت سا لم رحمۃ اللہ علیہ سے سما ع معروف نہیں ہے۔(تا ریخ کبیر ،ص230ج2 القسم الثا نی )
اس کے علا وہ جہم بن جا رود بھی غیر معروف راوی ہے چنا نچہ اس کے متعلق امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں :کہ یہ بڑے بڑے تا بعین سے روایت کر تا ہے لیکن خو د مجہو ل ہے ۔(دیوا ن الضعفاءص47رقم793)
نیز فر ما تے ہیں "کہ اس راوی میں جہا لت ہے خا لد بن ابی یزید رحمۃ اللہ علیہ کے علا وہ اس سے اور کو ئی راوی بیان نہیں کر تا ۔(میزان الاعتدال،ج3ص426)
محدثین کے ہا ں کسی راوی کی جہا لت صرف اسی صورت میں دور ہو سکتی ہے کہ کم از کم اس سے بیان کر نے وا لے دو ثقہ راوی ہو ں امام ذھبی نے مذکو ہ با ت کہہ کر اس با ت کی تو ثیق کی ہے کہاس کی جہا لت بد ستو ر قا ئم ہے کیو ں کہ اس سے صرف ایک راوی بیان کرتا ہے اور مجہو ل کی روایت نا قا بل قبو ل ہو تی ہے بلا شبہ حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس راوی کو چھٹے درجے کا مقبو ل راوی بنا دیا ہے ۔(التقریب ۔ج1ص135)
لیکن اس لفظ سے اکثر اہل علم دھو کہ کھا جاتےہیں حالا نکہ اس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ مرو یا ت متا بعت کے بغیر قبو ل نہیں ہو تیں جیسا کہ حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے مقد مہ میں رواۃ کی وجہ بند ی کر تے ہو ئے وضا حت کی ہے "چھٹے درجے سے مرا دوہ راوی ہیں جن سے بہت کم احا دیث مرو ی ہیں لیکن ان میں کو ئی ایسا سقم نہیں ہو تا جس کی وجہ سے ان کی مرویات کو رد کر دیا جا ئے ایسے حضرا ت کے متعلق "مقبو ل "کا لفظ استعما ل ہو گا مطلب یہ ہے کہ اگر متا بعت ہو تو مقبو ل بصورت دیگر ان کی مرویا ت کمز ورہو ں گی ۔(مقد مہ :ص5)
زیر بحث حدیث کی متا بعت نہیں مل سکی اور نہ ہی اس کی تا ئید میں کو ئی شا ھد پیش کیا جا سکتا ہے امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں ۔"محدث ابن قطا ن رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو با یں وجہ مو صو ل قرار دیا ہے کہ اس کے راوی جہم بن جا رود کے حا لا ت کے متعلق کوئی پتہ نہیں چل سکا اور اس سے بیان کر نے والا بھی ابو عبد الرحیم خا لد بن ابی یزید رحمۃ اللہ علیہ نا می ایک راوی ہے ؛"(التہذیب السنن،ج 2ص292)
محدث ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کے متعلق اظہا ر تر دو فر ما یا ہے فر ما تے ہیں :" کہ جہم بن جا رود ایک ایسا راوی ہے کہ غیر کی وجہ سے اس کی بیان کر دہ روایت کو بطور دلیل پیش کیا جا سکتا ہے ۔
(صحیح ابن خز یمہ ،ج 4 ص 291 )
صحیح ابن خز یمہ رحمۃ اللہ علیہ پر تعلیق ڈا کٹر مصطفی اعظمی نے لکھی ہے اور محد ث البا نی رحمۃ اللہ علیہ نے نظر ثا نی کے فرا ئض سر انجا م دئیے ہیں صاحب تعلیق نے اس کی سند کے متعلق لکھا ہے کہ ضعیف ہے اگر چہ حا فظ احمد شا کر نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔(مسند امام احمد:ج 9ص144)
تا ہم مذکو رہ با لا حقا ئق کے پیش نظر ہمیں اس کی صحت تسلیم کر نے میں تر دو ہے اس کی صحت تسلیم کر نے کی صورت میں زیا دہ سے زیا دہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ ھدی کا جا نو ر اگر متعین ہو جا ئے تو اسے تبدیل کرنا درست نہیں لیکن یہ پا بند ی قربا نی کے جا نو ر پر عا ئد کرنا کسی صورت میں درست نہیں ہے مقصد کے اشترا ک سے یہ کب لا ز م آتا ہے کہ ان دو نو ں کے احکا م بھی ایک جیسے ہو ں ہما رے نز دیک ھدی اور قربا نی کے جا نو ر میں درج ذیل کئی ایک وجو سے فرق ہے ۔
(1)ھد ی کے لیے جگہ کا تعین ہے یعنی وہ جا نو ر جو اللہ کا قر ب حاصل کر نے کے لیے بیت اللہ کی طرف بطو ر ھدیہ روانہ کیا جا ئے جبکہ قر با نی کا جا نو ر ان مکا نی حدودو قبو د کا پا بند نہیں ہے
(2)ھدی کے لیے اشعار اور تقلید ضروری ہے جبکہ قر با نی کے جا نو ر میں یہ پا بند ی نہیں ہے ۔
(3)ھدی صرف ایک آدمی کی طرف سے ہو سکتی ہے جبکہ قربا نی میں تمام اہل خا نہ شر یک ہو تے ہیں خواہ ان کی تعدادکتنی ہو ۔
(4)بعض حا لا ت میں انسا ن ھدی کا گو شت خو د نہیں کھا سکتا اور نہ ہی اپنے رفقا کو کھلا سکتا ہے جبکہ قر با نی کا جا نو ر خو د بھی کھا یا جا سکتا ہے اور دوسر ں کو کھلانے میں بھی چندا ں حرج نہیں ہے ۔
(5)ھدی اونٹ مین سا ت شریک ہو سکتے ہیں جبکہ قر با نی کے اونٹ میں دس تک شراکت جا ئز ہے ۔
(6)ھدی کے لیے وقت کی کو ئی پا بندی نہیں جبکہ قر با نی کےلیے مخصوص ایا م ہیں۔
(7)قربا نی کر نے کے لیے حکم ہے کہ وہ ذوالحجہ کا چا ند نظر آنے کے بعد ذبح کے وقت تک اپنی حجا مت وغیرہ نہ بنا ئے جبکہ بعض حا لا ت میں ھدی بھیجنے والے پر اس قسم کی کو ئی پا بندی نہیں ۔
(8)علا مہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ھدی کا جا نو ر عیو ب سے پا ک ہو نا ضروری نہیں جبکہ قر با نی کے جا نو ر میں عیو ب کا ہو نا جا ئز نہیں ہے ۔
(9)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 9ھ میں ھدی کے جا نو ر حضرت ابو بکر صدیق رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کے ہمرا ہ روا نہ کیے جبکہ مدینہ میں آپ نے قر با نی بھی دی اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہہ دونو ں کے احکا م الگ الگ ہیں ۔
(10)ھدی کا جا نو ر تبدیل کر نا درست نہیں جب کہ قر با نی میں ایسا کیا جا سکتا ہے ۔(اللک عشرۃ کا ملۃ)
محدثین کرا م نے کتب حدیث میں ھدی کے متعلق اس طرح کے عنوانات قا ئم کیے ہیں جن سے معلوم ہو تا ہے کہ ھدی کا جا نو ر تبدیل کرنا جا ئز نہیں ہے (منتقی الاخبا ر ) لیکن کسی محدث نے قر با نی کے متعلق اس کا باب قا ئم نہیں کیا جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان دونو ں کے احکا م میں بہت فرق ہے اور ایک کو دوسرے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔مذکو رہ حدیث پر ایک اور پہلو سے بھی غو ر کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی ا للہ تعالیٰ عنہ نے ایک عمدہ بختی اونٹ خرید ا جب اس کی تین سو دینا ر قیمت لگی تو آپ نے اسے فرو خت کر کے اس کی قیمت کے عو ض ایک عام اونٹ خرید نے کا پروگرا م بنا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے منع فر ما یا کہ وہ عمدہ اونٹ اللہ کی راہ میں ذبح کرو بہترین اونٹ کے بد لے عا م اونٹ ھد ی کے لیے لینا درست نہیں چنا نچہ محد ث ابن خز یمہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر با یں الفا ظ عنوا ن قا ئم کیا ہے زیا د ہ قیمت کی عمدہ ھد ی دینے کا بیا ن " یہ معنی کر نے سے مذکو رہ حدیث مانعین کے لیے دلیل نہیں بن سکتی مختصر یہ ہے کہ قر با نی کے تبا دلہ کی چا ر صورتیں ممکن ہیں ۔
(1)صاحب حیثیت وہ جا نو ر بھی ذبح کر ے جو اس نے پہلے سے خرید کیا ہے اور بہترین عمدہ جا نو ر اپنی گرہ سے بھی خرید کر ذبح کر ے ۔
(2)اسے فرو خت کر کے اس میں اپنی طرف سے کچھ رقم ملا کر بہترین جا نو ر خرید کر ذبح کر دیا جا ئے ۔
(3)عدم استطا عت کی صورت میں خرید ے ہو ئے جا نو ر کو ہی ذبح کر دے ۔
(4)یہ جا ئز نہیں ہے کہ اسے بیچ کر کچھ رقم پس انداز کر ے اور اس سے کم قیمت کے عو ض کو ئی معمولی جا نو ر خرید کر ذبح کر ے اس قسم کی سو دے با زی کی اجا زت نہیں دی جا سکتی ،(ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب