سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(159) بیت اللہ کا طواف

  • 11297
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1481

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قا ری محمد یحٰی صا حب  اٹک  سے  دریا فت  کر تے ہیں  کہ کیا بیت اللہ کے اند ر  اور  میزا ب  رحمت  کے نیچے قبر  یں  مو جو د  ہیں  اور بیت  اللہ  کا طو اف  انہیں  قبرو ں  کی وجہ  سے  کیا جا تا ہے ؟  ہما رے ہا ں ایک بریلو ی  عا لم  دین  نے اس قسم  کا دعویٰ کیا ہے  قرآن  و حدیث  کے حو الہ  سے جواب  مطلو ب  ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بر یلو ی  حضرا ت  جو ہر سا ل  حج  بیت اللہ  کی سعادت  حا صل  کر کے  وا پس  وطن  آتے ہیں  ان سے پو چھا  جا سکتا  ہے کہ انہو ں  نے اس "نئی  دریا فت  کا مشا ہدہ  کیا ہے  یقیناً یہ دعویٰ  با طل  غلط  اور بے بنیا د  ہے اگر  چہ بعض  مؤر خین  نے بلا  تحقیق  ایسی با تو ں  کو اپنی  کتا بو ں سے نقل کیا ہے  لیکن یہ سب خو د سا ختہ ہیں مثلاً محب  الدین  الطری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں  کہ مقا م  ابرا ہیم  اور زمزم  کے درمیا ن  ننا نو ے  انبیا ئے کرا م  مد فو ن ہیں :"  نیز  حضرت اسما عیل  علیہ السلام  اپنی وا لدہ   حا ھرہ  رضی ا للہ تعالیٰ عنہا  کے ہمرا ہ  حطیم  میں  محو استرا  حت  ہیں اس کے علا وہ  حضرت ہو د  علیہ السلام  حضرت  صا لح  علیہ السلام  اور حضرت  شعیب  علیہ السلام  کی آخری  آرام گا ہ  ہیں  بھی  اسی خطہ  میں ہیں  یہ با تیں  علا مہ   ازرقی  کی  تا لیف  اخبار  مکہ  کے  حو الہ  سے نقل  کی ہیں ۔(القری فی احوا ل ام القری :ص 6)

لیکن ان " حقا ئق  کو بلا  سند  بیان  کیا گیا  ہے  جبکہ محدثین  عظا م  کے ہا ں  سند  صحیح  ہو نا  ہی  کسی  با ت  کے  صحیح ہو نے کی دلیل ہے   بلا سند ہو نے کی وجہ سے  محدثین  نے  ایسی بو تو ں  کو اپنی  کتب  میں  جگہ  نہیں  دی  ہے  علا مہ سیو طی رحمۃ اللہ علیہ  نے الکنیٰ للحاکم کے حوا لہ  سے  بر وا یت  عا ئشہ صدیقہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا  ایک حد یث با یں  الفا ظ نقل  کی ہے :  ان قبر  اسما عیل  فی الحجر (الجا مع الصغیر)

حضرت اسما عیل  علیہ السلام کی قبر  حطیم میں ہے ۔ لیکن مصنف  نے خو د   ہی  اس حدیث کے ضعیف  ہو نے  کی صرا حت  کر دی ہے  پھر  محد ث عصر  علا مہ البا نی رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی  اسے ضعیف  قرار دیا ہے ۔(ضعیف الجا مع  الصغیر  :حدیث نمبر 1905)

اگر اسے  صحیح  بھی  ما ن لیا جا ئے تو بھی اس مو قف کی دلیل نہیں  بن سکتی  کیو ں  کہ  بر یلو ی  عا لم  دین  نے بیا ن  کیا ہے  کیو ں  کہ اگر  قبر  کا وجو د  ختم  ہو جا ئے  تو اس  کے احکا م  وہ نہیں  ہیں جو ظا ہر قبر کے ہو تے ہیں  خو د رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سب  سے پہلے  جس جگہ  مسجد کی  بنیا د رکھی  تھی  اس کے ایک حصہ  میں مشر کین  کی قبر  یں تھیں  انہیں  اکھا ڑ  کر پھینک  دیا گیا  اور جگہ صاف  کر کے  وہا ں  مسجد  نبو ی   صلی اللہ علیہ وسلم   کی  بنیا د رکھی گئی ۔(صحیح بخا ری)

اب یہ نہیں کہا جا سکتا  کہ مسجد نبو ی قبر ستا ن میں بنا ئی گئی  کیو ں  کہ قبرو ں  کو نیست  ونا  بو د  کر دیا  گیا تھا  اس طرح  اگر   مسجد   حرا م  یا حطیم  میں قبر یں  تھیں  تو وہ  حو ادث  زما نہ  سے خو د بخو د  ختم  ہو گئی ہیں ملا علی قا دری کہتے ہیں :"کہ حضرت اسما عیل   علیہ السلام  کی قبر (اگر بتھی ) تو وہ ختم  ہو چکی  ہے لہذا  اس سے  مسجد  میں قبر  کے جو از  پر استدلا ل  صحیح  نہیں ہے ۔(مر قا ۃ )

سوال  میں ایک  بے بنیا دی  سی با ت  کا ذکر  ہے کہ بیت اللہ  اکا طوا ف   انہیں  قبروں  کی وجہ  سے ہو تا ہے  اصل با ت  یہ ہے  کہ  قبر کے  پجا ر یو ں  میں قبر  پر ستی  کے جر ائم  اس قد ر  سرا یت  کر چکے  ہیں کہ  اب انہیں ہر جگہ یہی بو آتی ہے  اس سے بڑھ کر اور شر ک کیا ہو سکتا ہے کہ اللہ تعا لیٰ  نے اپنی عبا دت  کےلیے  اس گھر  (بیت اللہ ) کو تعمیر  کر وا یا  اور اس کا طواف  کر نے  کو بھی  اپنی عبا د ت  قرار دیا تو  پھر طوا ف  جیسی اہم عبا دت  میں کسی کی شراکت  کیو نکر  گوار  ہو سکتی ہے   پھر یہ گھر مذعو مہ قبرو ں  کے معر ض  و جو د  میں آنے  سے پہلے  مو جو د  تھا  اور اس کا  طوا ف  کیا جا تا تھا  یقیناً یہ بہت بڑا جھو ٹ  ہے جو اللہ تعا لیٰ  کے ذمہ  لگایا  جا تا ہے  اللہ تعا لیٰ  ہمیں  اس قسم  کے  شر ک  اکبر  سے محفو ظ  رکھے  اور بے بنیا د  بو تو ں  نیز  بے  اصل  کا مو ں  سے دور رکھے  ۔آمین ،(واللہ اعلم )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

 

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:190

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ