السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قا ری محمد یحٰی صا حب اٹک سے دریا فت کر تے ہیں کہ کیا بیت اللہ کے اند ر اور میزا ب رحمت کے نیچے قبر یں مو جو د ہیں اور بیت اللہ کا طو اف انہیں قبرو ں کی وجہ سے کیا جا تا ہے ؟ ہما رے ہا ں ایک بریلو ی عا لم دین نے اس قسم کا دعویٰ کیا ہے قرآن و حدیث کے حو الہ سے جواب مطلو ب ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بر یلو ی حضرا ت جو ہر سا ل حج بیت اللہ کی سعادت حا صل کر کے وا پس وطن آتے ہیں ان سے پو چھا جا سکتا ہے کہ انہو ں نے اس "نئی دریا فت کا مشا ہدہ کیا ہے یقیناً یہ دعویٰ با طل غلط اور بے بنیا د ہے اگر چہ بعض مؤر خین نے بلا تحقیق ایسی با تو ں کو اپنی کتا بو ں سے نقل کیا ہے لیکن یہ سب خو د سا ختہ ہیں مثلاً محب الدین الطری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مقا م ابرا ہیم اور زمزم کے درمیا ن ننا نو ے انبیا ئے کرا م مد فو ن ہیں :" نیز حضرت اسما عیل علیہ السلام اپنی وا لدہ حا ھرہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا کے ہمرا ہ حطیم میں محو استرا حت ہیں اس کے علا وہ حضرت ہو د علیہ السلام حضرت صا لح علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کی آخری آرام گا ہ ہیں بھی اسی خطہ میں ہیں یہ با تیں علا مہ ازرقی کی تا لیف اخبار مکہ کے حو الہ سے نقل کی ہیں ۔(القری فی احوا ل ام القری :ص 6)
لیکن ان " حقا ئق کو بلا سند بیان کیا گیا ہے جبکہ محدثین عظا م کے ہا ں سند صحیح ہو نا ہی کسی با ت کے صحیح ہو نے کی دلیل ہے بلا سند ہو نے کی وجہ سے محدثین نے ایسی بو تو ں کو اپنی کتب میں جگہ نہیں دی ہے علا مہ سیو طی رحمۃ اللہ علیہ نے الکنیٰ للحاکم کے حوا لہ سے بر وا یت عا ئشہ صدیقہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہا ایک حد یث با یں الفا ظ نقل کی ہے : ان قبر اسما عیل فی الحجر (الجا مع الصغیر)
حضرت اسما عیل علیہ السلام کی قبر حطیم میں ہے ۔ لیکن مصنف نے خو د ہی اس حدیث کے ضعیف ہو نے کی صرا حت کر دی ہے پھر محد ث عصر علا مہ البا نی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔(ضعیف الجا مع الصغیر :حدیث نمبر 1905)
اگر اسے صحیح بھی ما ن لیا جا ئے تو بھی اس مو قف کی دلیل نہیں بن سکتی کیو ں کہ بر یلو ی عا لم دین نے بیا ن کیا ہے کیو ں کہ اگر قبر کا وجو د ختم ہو جا ئے تو اس کے احکا م وہ نہیں ہیں جو ظا ہر قبر کے ہو تے ہیں خو د رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے جس جگہ مسجد کی بنیا د رکھی تھی اس کے ایک حصہ میں مشر کین کی قبر یں تھیں انہیں اکھا ڑ کر پھینک دیا گیا اور جگہ صاف کر کے وہا ں مسجد نبو ی صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیا د رکھی گئی ۔(صحیح بخا ری)
اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسجد نبو ی قبر ستا ن میں بنا ئی گئی کیو ں کہ قبرو ں کو نیست ونا بو د کر دیا گیا تھا اس طرح اگر مسجد حرا م یا حطیم میں قبر یں تھیں تو وہ حو ادث زما نہ سے خو د بخو د ختم ہو گئی ہیں ملا علی قا دری کہتے ہیں :"کہ حضرت اسما عیل علیہ السلام کی قبر (اگر بتھی ) تو وہ ختم ہو چکی ہے لہذا اس سے مسجد میں قبر کے جو از پر استدلا ل صحیح نہیں ہے ۔(مر قا ۃ )
سوال میں ایک بے بنیا دی سی با ت کا ذکر ہے کہ بیت اللہ اکا طوا ف انہیں قبروں کی وجہ سے ہو تا ہے اصل با ت یہ ہے کہ قبر کے پجا ر یو ں میں قبر پر ستی کے جر ائم اس قد ر سرا یت کر چکے ہیں کہ اب انہیں ہر جگہ یہی بو آتی ہے اس سے بڑھ کر اور شر ک کیا ہو سکتا ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے اپنی عبا دت کےلیے اس گھر (بیت اللہ ) کو تعمیر کر وا یا اور اس کا طواف کر نے کو بھی اپنی عبا د ت قرار دیا تو پھر طوا ف جیسی اہم عبا دت میں کسی کی شراکت کیو نکر گوار ہو سکتی ہے پھر یہ گھر مذعو مہ قبرو ں کے معر ض و جو د میں آنے سے پہلے مو جو د تھا اور اس کا طوا ف کیا جا تا تھا یقیناً یہ بہت بڑا جھو ٹ ہے جو اللہ تعا لیٰ کے ذمہ لگایا جا تا ہے اللہ تعا لیٰ ہمیں اس قسم کے شر ک اکبر سے محفو ظ رکھے اور بے بنیا د بو تو ں نیز بے اصل کا مو ں سے دور رکھے ۔آمین ،(واللہ اعلم )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب