سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(152) درہم اور دینار کی زکوٰۃ

  • 11290
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1143

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اٹک سے محمد ز ما ن لکھتے ہیں کہ زکوۃ کے متعلق ہمیں بتا یا گیا ہے کہ دو سو در ہم چا ندی کے پچا س روپے ہو تے ہیں، اسی طر ح بیس دینا ر سو نے کے سا ٹھ رو پے،اس حسا ب سے جس شخص کے پا س پچا س روپے کی چاندی، اسی طرح سا ٹھ رو پے یا سا ٹھ روپے کا سو نا ہو اور اس پر سا ل گز ر جا ئے تو ان سے چا لیسوا ں حصہ بطور زکو ۃ ادا کر نا ضروری ہے یہ مسئلہ کہا ں تک درست ہے ؟ قرآن وحدیث کی رو سے جوا ب دیا جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سو نے کی زکو ۃ کے متعلق ہما رے علماء  میں اختلاف ہے کہ اس میں وزن کا اعتبا ر ہے یا قیمت کو مدنظر رکھا جائے؟ مولانا عبدالوہا ب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فتو ی ہے کہ قیمت کا اعتبا ر کیا جا ئے چو نکہ عہد نبوی میں ایک دینار تین روپے کے برا بر ہو تا تھا اور سونے کی زکو ۃ کا نصا ب بیس دینا ر ہے، اس لیے سو نے کی زکو ۃ کے لیے سا ٹھ رو پے کی مالیت کا سو نا ضروری ہے۔ حا فظ عبد اللہ روپٹری رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی ہے کہ زکو ۃ کے لیے وزن معتبر ہو گا کیوں کہ بعض روا یا ت میں بیس مثقا ل سو نے سے زکو ۃ ادا کرنے کا ثبو ت ملتا ہے اور مثقا ل کا تعلق وزن سے ہے  نقدی سے نہیں اور مثقا ل سا ڑھے چا ر ما شہ کا ہو تا ہے اس حسا ب سے بیس مثقا ل ساڑھے سا ت تو لے کے مسا وی ہے جس سے زکوۃ ادا کی جا ئے ۔مو لا نا ثنا ءاللہ امر تسری رحمۃ اللہ علیہ نے دو نو ں حضرا ت کے مو قف کے بین بین ایک تطبیقی صورت بیا ن فر ما ئی ہے کہ نص حدیث سے وزن معتبر ہے اور اقتضا ئے وقت کے پیش نظر  قیمت کا اعتبا ر کیا جا ئے جس صورت میں بھی غر با اور مسا کین کا فائدہ ہو اسے اختیا ر کیا جا ئے۔ ہما را رجحا ن وزن کی طرف ہے اور اگر قیمت کا لحا ظ رکھنا ہے تو بھی حا ضر بھاؤ سے لگا ئی جائے۔ ایسا نہیں ہو نا چا ہیے کہ عہد رسا لت میں سو نے کی قیمت کے مطابق آج حسا ب لگا کر 60روپے کی ما لیت پر زکو ۃ واجب قرار دی جائے۔ اب اگر اس کے پا س ساڑھے سا ت تو لے سونا مو جو د ہو اور اس پر سا ل گزر جا ئے تو چا لیسواں حصہ سو نا اس کے مسا وی حا ضر بھا ؤ کے حسا ب سے قیمت بطور زکو ۃ نکا لی جا ئے۔ نقدی کے متعلق ہما را مو قف یہ ہے کہ اگر کسی کے پا س اتنی نقد ی ہو جس سے سا ڑھے با ون تو لے چاندی خریدی جا سکے اور اس جمع شدہ نقدی پر سال گزر جائے تو چالیسواں حصہ زکو ۃ ادا کر نا ضروری ہے۔ سوال میں ذکر کر دہ پچا س یا سا ٹھ روپے کی ما لیت سے زکو ۃ ادا کرنا ہمیں اس سے اتفاق نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:184

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ