کھانے کھاتے وقت سلام کا جواب دینا مکروہ ہے؟ اور اس سلسلے میں ابن عمر کا اثر کس طرح وارد ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ ﷺنے مسلمانوں کو سلام عام کرنے کا حکم دیاہے۔ فرمایا:
’’اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔‘‘
دوسری حدیث میں:
’’مسلمان کے دوسرےمسلمان پر چھ حقوق ہیں پوچھا گیا وہ کون سے ہیں اے اللہ کے رسولؐ !فرمایا:
جب تو اس سے ملے تو اس پر سلام بھیجو جب وہ دعوت دے تو قبول کرو جب نصیحت مانگے تو نصیحت کرو جب چھینک آئے تو صرف الحمدللہ کہے تو تم اس کا جواب او رجب وہ بیمار ہو تو عیادت کرو جب فوت ہوجائے و اس کا جنازہ پڑھو۔‘‘
مذکورہ بالا احادیث میں نبیﷺ نے کسی قید کے بغیر ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان پر سلام بھیجنے کا حکم کیاہے بلکہ اسے اس پر اس کا حق گنوایا ہے۔
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہ کہ مسلمان کی جہاں بھی ملاقات ہوتی ہے وہ اسے سلام کرے ہاں ان احادیث کے عموم کی تخصیص کے لیے اگر کوئی صحیح حدیث یا اثر وارد ہوگا تو وہ اس حالت کو مستثنیٰ کردے گا۔
مذکورہ بالا استفسار میں نبی سے بلا استثناء سلام کی حدیث کا مطالبہ کیا گیا تھا سو وہ پیش کردی گئی ہے اور دونوں احادیث بھی صحیح مسلم کے حوالہ سے ہیں۔ اب کھانا کھانا کے دوران جو لوگ سلام کہنے کے قائل ہیں ان کے ذمہ ایسی صحیح حدیث یا اثر ہے جو ان احادیث کے عمومی الفاظ کو خاص کرسکیں جس سے کھانا کھاتے ہوئے سلام نہ لینے کی تحقیق ہوئی ہو۔
باقی رہا ابن عمر کا اثر تو وہ بالتفصیل اس طرح سے ہے:
نافع عبداللہ بن عمر کے متعلق کہتے ہیں کہ:
ہم عبداللہ بن عمرؓ کے ہمراہ مدینہ طیبہ سے باہر تھے ۔ ساتھیوں نے کھانا تیار کیا اور دستر خوان پر لگایا ہم کھانے لگے تو وہاں ایک چرواہا گزرا اس نے سلام کیا۔ابن عمرؓ نے اسے بھی کھانے کی دعوت دی مگر اس نے کہا میرا روزہ ہے۔ (شعب الایمان:5291)
ابن عمرؓ کے اس اثر سے بھی پتہ چلتا ہ ےکہ صحابہ سلام کرنے میں کی قسم کی تخصیص اور استثناء نہیں کرتے تھے اور خاص طور پر کھانے کے دوران کا یہ اثر موجود ہے۔ بالفرض یہ اثر نہ بھی ہوتا تو شروع میں پیش کی گئیں احادیث کے مطابق ہر حالت میں سلام جائز تھا۔ إلا کہ اس پرکسی صحیح سند سے کوئی نص وارد نہ ہوجاتی۔
اب جو لوگ کھانا کھانے سلام کے قائل نہیں ان کے ذمہ دلیل پیش کرنا ہے کہ کھانا کھاتے ہوئے سلام نہ کرنے کی دلیل پیش کریں۔