سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(145) ایصال ثواب کے لیے قرآن خانی کا جواز

  • 11283
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1642

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ڈیرہ غا ز ی خا ں سے محمد اسحا ق لکھتے ہیں کہ میت کے لیے ایصا ل ثوا ب کی خا طر قرآن خوا نی کے جواز پر مندرجہ ذیل رو ایت کو بطو ر دلیل پیش کیا جا تا ہے، اس کی وضا حت مطلو ب ہے ۔

جوشخص قبر ستا ن سے گزرتے وقت گیا رہ دفعہ سورۃ اخلا ص پڑھ کر اس کا ثو اب مر دو ں کو بخشے تو اسے مردوں کی تعداد کے مطا بق ثو اب دیا جا ئے گا ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس خو د سا ختہ حد یث کو علا مہ اسما عیل عجلو نی نے التا ریخ للر افعی کے حو الہ سے بلا سند نقل کیا ہے۔ (الکشف:2/282)

پھر اس پر کسی قسم کا تبصرہ کر نے کی بجا ئے اس پر سکو ت اختیا ر فر ما یا ہے، حا لا نکہ کتا ب کا مو ضو ع لو گو ں میں ز با ن زد عا م اور مشہو ر روا یا ت سے پر دہ اٹھا نا ہے، اس تسا ہل کے پیش نظر بعض اہل نے اس روا یت کو صحیح تسلیم کر کے اس پر ایک مسئلہ (میت کو قرآن خوا نی کا ثوا ب پہنچتا ہے ) کی بنیا د  رکھ دی ،چنا نچہ مرا قی الفلا ح شر ح نو ر الایضا ح میں یہی روایت  دار قطنی  کے حوا لہ سے نقل کر کے بطو ر حجت پیش کی گئی ہے ۔ (حاشیہ طحطا دی :342)

مو لا نا ابو الا علیٰ مو دودی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایسا ہی کیا ہے ۔( تفہیم القرآن:5/216)

ہما ر ے نا قص علم کے مطا بق یہ روا یت با لکل من گھڑت ہے، تلا ش بسیا ر کے با و جو د ہمیں روا یت سنن دارقطنی میں نہیں مل سکی، یقیناً یہ روا یت دارقطنی میں نہیں ہے ۔ بلکہ اسے ابو محمد الخلال نے با یں بیا ن کیا ہے:عن نسخۃ عبد اللہ بن احمد بن عا مر عن ابیہ عن علی الرضا عن ابائہ۔ ( القراءۃعلی القبو ر : 2/ 201)

جس نسخہ سے یہ روایت نقل کی گئی ہے، وہ پو رے کا پو را مو ضو ع روایات کا پلندہ ہے، جیسا کہ حا فظ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ۔ (میزا ن الاعتدال:2/390)

حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لسا ن المیزان میں اس کی تصدیق کی ہے، یہ عجیب بات ہے کہ علا مہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بے اصل روا یت کو’’ ذیل الاحادیث الموضوعہ‘‘ میں بیا ن کر نے کے با وجو د اپنے ایک رسا لہ میں اسے بطور دلیل پیش کیا ہے۔ چنا نچہ اسے ابو محمد سمر قندی کے حو الہ سے نقل کیا ہے اور اس کے ضعف کی طرف اشا رہ کر نے کے با و صف اس کا پو را پورا دفا ع کیا ہے، وہ بطو ر دلیل مندرجہ ذیل دو مزید روا یا ت بیا ن کر تے ہیں :

(الف ) جو شخص قبر ستا ن میں داخل ہو کر سو ر ۃ فا تحہ ، سورۃ اخلا ص اور سور ۃ تکا ثر پڑھے اور کہے کہ میں نے اس کی تلا وت کا ثو اب اس قبرستان میں مد فو ن اہل اسلام کو بخش دیا ہے تو وہ مردے قیا مت کے دن اللہ کے حضور اس کی سفا رش کر یں گے ۔

(ب) جو شخص قبر ستا ن میں داخل ہو کر سورۃ یاسین پڑھے تو اللہ تعالیٰ مر دوں پر عذا ب میں تخفیف کر دیتا ہے اور مردوں کی تعداد کے مطا بق پڑھنے والے کو نیکیا ں دیتا ہے ۔(شرح الصدور:130)

علا مہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس قسم کی روایت نقل کر نے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ روا یا ت اگر چہ ضعیف ہیں تاہم اس مجمو عہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی کچھ بنیا د ضرو ر ہے ۔(شرح الصدور:130)

لیکن دین اسلا م میں مسا ئل شر عیہ کی بنیا د اس طرح کی مو ضو ع اور من گھڑت روا یا ت پر نہیں رکھی جاسکتی چنانچہ مو لا نا عبد الرحمن مبا رکپو ری، علامہ سیو طی  کی یہ ’’بنیا د‘‘ با یں الفا ظ منہدم کر تے ہیں: یہ ضروری نہیں کہ ضعیف احا دیث کے ہر مجمو عہ کی کو ئی اصل بھی ہو ۔ (تحفۃ الاحوذی:2/126)

علامہ مبا رک پوری نے با لکل صحیح فر ما یا ہے، کیو نکہ ضعیف احا دیث کی گھٹیا اور بد تر ین قسم مو ضو ع روایت کو کسی مسئلہ کی بنیا د نہیں قرار دیا جا سکتا، جمہور محدثین تو مطلق طو ر پر ضعیف روا یت کو قا بل عمل نہیں سمجھتے، البتہ بعض اہل علم کا اصرار ہے کہ فضا ئل اعما ل میں (اعما ل میں نہیں ) ضعیف حدیث قا بل حجت ہے، وہ بھی مشر وط طور پر اور وہ شر ا ئط حسب ذیل ہیں :

 روایت میں شدید قسم کا ضعف نہ ہو، یعنی اس کے بیا ن کر نے والا کو ئی راوی کذا ب یا جھو ٹ بولنے کے متعلق تہمت زدہ ہو جبکہ زیر بحث روا یا ت خو د سا ختہ ہیں۔

 نفس مسئلہ کسی صحیح حدیث سے ثا بت ہو، البتہ اس کی فضیلت بیا ن کر نے میں ضعیف روا یت کا سہا را لیا جاسکتا ہے، جبکہ زیر بحث مسئلہ سر ے سے ثابت ہی نہیں ہے۔

 روا یت میں بیان شدہ حکم کسی عقیدہ یا عبا دت سے متعلق نہ ہو ،نیز اس روایت کو بیا ن کر تے وقت اس کی نسبت برا ہ را ست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف نہ کی جا ئے بلکہ "روی"جیسے الفا ظ سے بیا ن کی جائے ۔

مذکورہ با لا شر ائط میں سے کو ئی شر ط بھی ان روایا ت میں نہیں پا ئی جا تی بلکہ ان روایا ت  سے معلو م ہوتا ہے کہ قبر ستا ن میں قرآن خو انی ہو سکتی ہے، حا لا نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا اس کے متعلق ایک وا ضح فرمان ہے کہ اپنے گھروں کو قبرستا ن نہ بنا ؤ (بلکہ ان میں قرآن کی تلا وت کر تے رہا کرو )کیو نکہ جس گھر میں سو رۃ بقرۃ کی تلا وت ہو گی وہا ں شیطا ن بھا گ جا تا ہے ۔ (صحیح مسلم :کتا ب الصلو ۃ )

محدثین کرا م نے قبر ستا ن میں قرآن پا ک کی تلا وت نہ کر نے پر اس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا ہے، جیساکہ مندرجہ ذیل حدیث کو قبر ستا ن میں نماز نہ پڑھنے کے لئے دلیل بنا یا گیا ہے، گھرو ں میں نماز پڑ ھا کرو انہیں قبر ستا ن نہ بنا ؤ ۔(صحیح مسلم : کتا ب الصلو ۃ )

مروجہ قرآن خوا نی اور ایصا ل ثوا ب کے قائلین کی کل کا ئنا ت یہی ہے جو ہم نے بیا ن کر دی ہے، اب قارئین کرا م خو د فیصلہ کر یں اس طرح کے "سہا رو ں " پر کسی شر عی  حکم کی بنیا د رکھی جا سکتی ہے ؟ بعض اہل علم نے عقل و قیاس اور زور بیا ن سے اس مسئلہ کو ثا بت کر نے کی کوشش کی ہے، چنانچہ مو لا نا مو دودی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ آدمی جس طرح مزدوری کر کے ما لک سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی اجرت میر ی بجائے فلا ں شخص کو دے دی جا ئے، اس طرح وہ کو ئی نیک عمل کر کے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کر سکتا ہے کہ اس کا اجر میری طرف سے فلا ں شخص کو عطا کر دیا جا ئے، اس میں بعض اقسا م کی نیکیوں کو مستثنٰی کرنے اور بعض اقسا م کی نیکیوں تک اسے محدود رکھنے کی کو ئی معقول وجہ نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن: 5/216)

حا لا نکہ اس طرح شرعی مسائل عقل و قیا س سے نہیں بلکہ صریح اور واضح نصوص سے ثا بت ہو تے ہیں، حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  نے اس عقلی مفرو ضے کا خو ب جوا ب دیا ہے، چنا نچہ سور ۃ نمبر53سورۃنجم آیت نمبر 39کی تفسیر میں لکھتے ہیں : انسا ن کے لیے کچھ نہیں مگروہ جس کی اس نے سعی کی ہے، اس آیت سے امام شافعی اور اس کے متبعین نے استنباط کیا ہے کہ قرآن مجید پڑھنے کا ثوا ب مردو ں کو نہیں پہنچتا کیو نکہ یہ مردوں کا عمل و کسب نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کا حکم نہیں دیا اور نہ اشارۃ یا صراحتاً اس کی را ہنما ئی فر ما ئی ہے اور نہ تر غیب دی ہے، بلکہ صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم سے بھی  یہ منقول نہیں ہے ۔ اگر میت کے لیے قرآن خوا نی کو ئی کا ر خیر ہو تا تو صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم اس سعا دت کو حا صل کر نے کے لیے ہم سے پیش پیش ہو تے، عبادات اور اعما ل خیر میں صرف نصوص پر انحصار کیا جاتا ہے، عقل و قیا س کو اس میں قطعاً کو ئی دخل نہیں ، ہا ں دعا اور صدقہ و خیرا ت کے متعلق شا رع علیہ السلام کی طرف سے واضح  نصو ص ہیں کہ ان کا ثو اب میت کو پہنچتا ہے۔(تفسیر ابن کثیر :4/305)

میت کو ثوا ب پہنچانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جن امو ر کی نشا ند ہی کی ہے ان میں قرآن خوا نی کا ذکر نہیں اور نہ ہی اس کا وجو د عہد صحابہ اور تا بعین میں ملتا ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:173

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ