السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ڈجکوٹ سے علی محمد لکھتے ہیں کہ اگر اہل میت کے لیے کو ئی دوسرا کھا نا نہ تیا ر کر ے تو کیا وہ خو د پکا سکتے ہیں یا نہیں ؟ نیز آپ نے ایک فتوی میں لکھا ہے کہ تعز یت سے مراد اہل میت کو صبر کی تلقین کرنا، پھر میت کے لیے دعا ئے مغفرت کرنا ہے، یہ وضا حت کر یں کہ مذکو رہ دعائیں ہاتھ اٹھا کر کی جا ئیں یا ویسے کہہ دی جا ئیں ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر اہل میت کے رشتہ داروں یا تعلق دارو ں میں کو ئی بھی ان کے لیے کھا نا تیا ر نہ کر ے تو اہل میت خود کھا نا تیار کر سکتے ہیں، شر یعت نے رشتہ داروں اور دیگر خویش و اقا ر ب سے کہا ہے کہ اہل میت تو غم سے نڈھا ل ہیں ان کے لیے کھا نا وغیرہ دوسروں کو تیا ر کرنا چا ہیے، گھر میں بچے وغیرہ بھی ہو تے ہیں انہیں کھلا نے پلا نے کے لیے گھر میں کھانا تیا ر کیا جا سکتا ہے ،اس سے خو د بھی کھا یا جا سکتا ہے، البتہ جو چیز منع ہے وہ ہے اہل میت کے ہاں اجتما ع اور اہتمام کے سا تھ اس اجتما ع کے لئے شا ن و شوکت کے سا تھ کھانے کی تیا ر ی، اس قسم کے اجتما ع اور اہتمام کو صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم نو حہ کی ایک قسم شما ر کر تے تھے جہاں تک تعز یت کے لیے ہاتھ اٹھا نے کا ذکر ہے اس کے متعلق ہم نے وضا حت سے لکھا تھا کہ تعزیت میں دو چیز یں ہو تی ہیں ایک میت کے لیے اخروی کامیا بی کی دعا کر نا اور دوسرا یہ کہ اہل میت کو تسلی دینا اور انہیں صبر و تحمل کی تلقین کر نا لیکن اہل میت کے گھر جا کر مخصوص اندا ز اختیا ر کر کے ہا تھ اٹھا کر دعا کرنے کا ثبو ت کتا ب و سنت سے نہیں ملتا ، بہر حا ل ہم اپنے مو قف کو دہر اتے ہیں کہ تعز یت میں میت اور اہل میت کے لیے دعا ضرور کی جائے لیکن اس کے لیے کسی دن جگہ یا خاص شکل و صورت کا اہتمام قطعاً درست نہیں ، یہ تمام امور مروجہ اور خو د سا ختہ ہیں، ایک مسلما ن کو ان سے اجتناب کرنا چا ہیے؟ خوشی غمی کے مواقع پر ہما رے اسلا ف جو روایا ت چھو ڑ گئے ہیں انہیں پر عمل کر نے میں خیر و بر کت ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب