سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(141) تعزیت کے لیے کتنے دن تک بیٹھنا چاہیے

  • 11279
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2098

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حشمت علی تحصیل جہا نیاں سے سوال کر تے ہیں کہ اہل حدیث حضرات تعز یت کے لیے ہا تھ اٹھا کر دعا کیو ں نہیں کر تے جبکہ مسلم شریف میں تعز یت کی دعا مرو ی ہے جو اللهم اغفرلابي سلمة سے شروع ہو تی ہے ،نیز بتا ئیں کہ تعزیت کے لیے کتنے دنو ں تک بیٹھا جا سکتا ہے ؟تیسرے دن رشتہ دار اکٹھے ہو تے ہیں، اب اہل حدیث علماء بھی لواحقین کے بلا نے پر تیسرے دن تقریر کر دیتے ہیں، کتا ب و سنت کی روشنی میں شر عی حیثیت وا ضح کر یں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 تعز یت میں دو چیز یں ہو تی ہیں،ایک میت کے لیے اخرو ی کامیابی کی دعا کر نا اور اہل میت کو تسلی دینا اور صبرو تحمل کی تلقین کر نا۔ الحمد اللہ اہل حدیث ان دو نو ں چیز و ں کی پا بند ی کر تے ہیں لیکن اہل میت کے گھر جا کر مخصوص انداز اختیا ر کر کے ہا تھ اٹھا کر دعا کر نے کا ثبو ت کتا ب و سنت سے نہیں ملتا ، اس لیے اہل حدیث اس رسم پر عمل نہیں کرتے ۔ سوال میں جس دعا کا حوا لہ دیا گیا ہے اس پر علا مہ نو و ی رحمۃ اللہ علیہ نے با یں الفا ظ با ب قا ئم کیا ہے: جب موت وا قع ہو جا ئے تو میت کی آنکھیں بند کر نا اور اس کے لیے دعا کر نا ۔

 درا صل جب حضرت ابو سلمہ  رضی اللہ عنہ فو ت ہو ئے تو ان کی آنکھیں کھلی تھیں آپ نے انہیں بند فر ما یا اور ان کے لیے دعا مغفرت کی۔ یہ کفن دفن سے پہلے کا معا ملہ ہے، نیز اس میں ہا تھ اٹھا نےکا ذکر نہیں ہے، میت پر تین دن کے لیے سو گ کر سکتے ہیں، صرف بیو ی کو اپنے خا و ند کی و فا ت پر چا ر ما ہ دس دن تک سو گ کر نے کی اجازت ہے لیکن سو گ کے ایام میں در یا ں بچھا کر بیٹھ رہنا اور آنے والوں کا مخصوص اندا ز سے تعز یت کے لیے فا تحہ خو انی کر نا قرآن و حدیث سے ثا بت نہیں ہے، تعز یت کے لیے تین دن کی تحدید بھی بدعت ہے جبکہ انسا ن کو جب بھی مو قع ملے اہل بیت سے تعز یت کی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر طیا ر رضی اللہ عنہ کے اہل خا نہ سے تین دن کے بعد تعز یت فر ما ئی تھی۔(مسند امام احمد:حدیث نمبر 1755))

حضرت جر یر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں کہ ہم میت کے دفن کر نے کے بعد اہل میت کے ہاں اجتما ع اور ان کے گھر کھا نا پکا نے کو نو حہ کی ایک قسم شمار کر تے تھے ۔(مسند امام احمد :ج2ص204)

اہل میت کے لیے کھا نے کا اہتمام دیگر رشتہ دارو ں یا پڑ و سیو ں کو کر نا چا ہیے۔

بہر حا ل اہل میت کے ہا ں اجتماع کتا ب وسنت سے متصا د م ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے (المجمو ع :ج5ص306، زادالمعاد ج1ص304)

دین اسلا م چو نکہ ایک مکمل ضا بطہ حیا ت ہے جس میں تر میم و اضا فہ کی کو ئی گنجا ئش نہیں ہے، اس لیے میت کے مر نے کے تین چا ر دن بعد مسجد یا گھر میں اکٹھے ہو نا ،تقر یر کر نا ، پھر میت کے لیے اجتما عی دعا کر نا سب روا جی چیز یں ہیں جس کا شر یعت سے کو ئی تعلق نہیں اور نہ قر ون اولیٰ میں اس کا ثبو ت ملتا ہے، اس لیے بریلوی حضرا ت کا فو تگی کے تیسرے دن قل خو انی کا اہتمام اور اہل حدیث حضرات کا مسجد یا گھر میں تقر یر اور اس کے بعد میت کے لیے اجتماعی دعا کا اہتما م ان دو نو ں میں اصولی طور پر کو ئی فر ق نہیں ہے، یہ سب حیلے بہا نے مر وجہ بد عا ت و رسو م کر نے کے لیے کیے جا تے ہیں ، ایک با غیرت مسلما ن اور خو د دار اہل حدیث کو تمام با تو ں سے اجتنا ب کر نا چا ہیے۔تعز یت سے مرا د اہل میت کو صبر کی تلقین اور ان کے لیے دعاء استقا مت پھر میت کے لیے دعا ئے مغفرت کر نا ہے، اس کے لیے کسی دن جگہ یا خا ص شکل و صورت کا اہتمام قطعاً درست نہیں ہے ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:170

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ