السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اسلام آبا د سے محمد اکر م پو چھتے ہیں کہ غا ئبا نہ نماز جناز ہ کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ کتا ب و سنت کی روشنی میں مفصل جو اب دیا جا ئے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غا ئبا نہ نماز جنا زہ کے متعلق علما ئے متقد مین میں اختلا ف ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر جمہو ر سلف صالحین اسے جائز کہتے ہیں جبکہ احنا ف اور ما لکی حضرا ت اسے نا جا ئز خیا ل کر تے ہیں ۔ ہما را رجحا ن جوا ز کی طرف ہے جس کی دلیل مندرجہ ذیل فر ما ن نبوی ہے : ’’آج حبشہ سے تعلق رکھنے والا ایک نیک سیرت انسا ن (شاہ حبش) فو ت ہو گیا ہے آؤ ہم اس کی نماز جنا زہ پڑ ھیں ۔‘‘راوی کہتے ہیں کہ ہم نے صفیں درست کیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنا زہ ادا کی، (نماز جنازہ کے وقت ) ہم نے صف بندی کر رکھی تھی ۔ (بخا ری ،کتا ب الجنا ئز )
صحیح بخا ری کی ایک دوسر ی روا یت میں ہے کہ
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم کو سا تھ لے کر عید گاہ تشر یف لےگئے اور وہا ں چار تکبیرو ں کے سا تھ اس کی نماز جناز ہ ادا کی۔‘‘ (کتا ب الجنائز )
بعض لو گ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنا زہ کا اہتمام اس لیے کیا تھا کہ مسلمانوں کی سر زمین کے علا وہ (لغیر ارضکم ) غیر ملک فو ت ہو ا تھا اور اس کا جنا زہ نہیں پڑھا گیا تھا ، یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ ایک ملک کا سر برا ہ مسلمان ہو اور اس کے اسلا م کا چر چا بھی ہوچکا لیکن وہا ں اس کا ہم نو ا نہ ہو حتی کہ اعیان سلطنت اہل خا نہ اور دوست و احبا ب بھی اس نعمت سے محرو م رہے ہو ں اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑ ھی گئی ہو ۔ (الفتح الربانی :7/223)
"لغیر ارضکم کا مطلب یہ ہے کہ وہ سر زمین مد ینہ فو ت نہیں ہوا اگر یہاں فو ت ہو تا تو تم ضرور اس کا جنا ز ہ پڑ ھتے، لہذا تم اس کی نما ز جنازہ ادا کر نے کا اہتمام کر و ۔ (عون المعبو د :2/198)
البتہ غا ئبا نہ نماز جنا زہ کے لئے مندرجہ ذیل با تو ں کو ملحو ظ رکھنا چا ہیے :
(1) فوت ہو نے والا اچھی شہر ت اور سیاسی، مذہبی اور علمی حیثیت کا حامل ہو، ہر چھو ٹے بڑے کی نماز جنا زہ غا ئبا نہ طور پر درست نہیں ۔
(2) غا ئبا نہ نماز جنا زہ کی ادائیگی میں سیا سی یا ما لی مفادات وا بستہ نہ ہوں، صرف اللہ کی رضا جو ئی مطلو ب ہو۔
(3) اس کے لئے اعلا نا ت یا انتظار یا دیگر ذرائع کو استعما ل نہ کیا جا ئے ،جیسا کہ ہما رے ہا ں آج کل رواج کے طور پر کیا جا تا ہے۔
(4)وہا ں تقا ریر خطا بات کا بھی قطعاً اہتمام نہ ہو، ایسا کر نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم سے ثا بت نہیں ہے ۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب