سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(14) اونچی آواز سے ذکر کرنے کا حکم

  • 11265
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-12
  • مشاہدات : 6673

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ذکر با لجہر جائز ہے‘ نا جائز ہے‘مباح ہے؟ ہمیں مفصل ذکر فرمائیں! اللہ آپ کا بھلا فرمائے۔(اخوکم فی اللہ:روح الا مین)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العزیز الحکیم۔

بہتر یہ ہے کہ آدمی اللہ کا ذکر خفیہ کرے اور اس طرح دعا بھی خفیہ کرے بلکہ دلائل صحیحہ کی بنا پر یہی زیادہ صحیح ہے جن کا ذکر ہم عنقریب کریں گے۔جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔

دلائل یہ ہیں:

1۔قول اللہ تعالیٰ کا:﴿ادعوا رَ‌بَّكُم تَضَرُّ‌عًا وَخُفيَةً ۚ إِنَّهُ لا يُحِبُّ المُعتَدينَ... ٥٥﴾...سورة الاعراف

(تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کر کے بھی اور چپکے چپکے بھی‘واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نا پسند کرتا ہے جوحد سے نکل جائیں)

2۔قول اللہ تعالیٰ کا:

﴿وَاذكُر‌ رَ‌بَّكَ فى نَفسِكَ تَضَرُّ‌عًا وَخيفَةً وَدونَ الجَهرِ‌ مِنَ القَولِ بِالغُدُوِّ وَالءاصالِ وَلا تَكُن مِنَ الغـٰفِلينَ ...٢٠٥﴾...سورة الاعراف

اور اے شخص !اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ صبح اور شام اور اہل غفلت میں سے مت ہونا)۔(اعراف 205)۔

اس معنی کی آیتیں بہت ہیں۔

3۔اور قول اللہ تعالیٰ کا:

﴿إِذ نادىٰ رَ‌بَّهُ نِداءً خَفِيًّا ...٣﴾...سورة مريم

’’جب کہ اس نے اپنے رب سے چپکے چپکے دعا کی تھی‘‘

تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی زکریا علیہ السلام کی اسی سبب سے تعریف فرمائی‘یعنی ذکر خفی کے سبب سے۔

4۔ان دلائل میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو بروایت ابو موسیٰ اشعری ‘بخاری(1/470)‘ مسلم(2/346)-مشكٰوة (1/201) میں  نقل ہے ‘وہ کہتے ہیں  کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو جب ہم کسی وادی پر چڑھتے او لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کہتے ہوئے ہماری آوازیں بلند ہوتیں۔تو نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘لوگو! اپنے آپ پر  رحم کرو‘ تم بہرے کو تو نہیں پکار رہے اور نہ ہی غیب کو۔ وہ تو تمہارے ساتھ قریب سے سن رہا ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اس پر باب باندھتے ہوئے فرمایا ہے:باب کہ تکبیر میں آواز بلند کرنا مکروہ ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے شرح مسلم (2/246) میں کہا ہے ‘حب آواز اٹھانے کی ضرورت نہ ہو تو ذکر میں آواز دھیمی کرنے کا استحباب یہاں سے ثابت ہوتا ہے جب وہ آواز نیچی رکھے گا تو اس میں اللہ کی تعظیم و توقیر میں مبالغہ ہے۔ہاں اگر آواز اٹھانے کی ضرورت  ہو اٹھا سکتا ہے جیسے کہ احادیث  میں آیا ہے۔

بخاری کے حاشیہ‘اسی طرح شرح نووی لمسلم:(1/217)۔ اور فتح الباری میں ہے: امام طبریرحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں اس میں دعا اور ذکر کے ساتھ آواز اونچی کرنے کی کراہت ہے‘صحابہ و تابعین میں اکثر سلف یہی کہتے ہیں‘‘۔

دیکھو بخاری:(1/116) (کتاب الصلوۃ)

امام نوویرحمہ اللہ تعالی  صفحہ مذکورہ میں کہتے ہیں) باب الذکر بعد الصلاۃ اس میں حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ہے وہ کہتے ہیں‘کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ختم ہونا تکبیر سے پہچانتے  تھے‘اور ایک روایت میں ہے ‘فرض نماز سے سلام پھیرتے وقت اونچی آواز سے ذکر کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں تھا‘یہ ہے دلیل اس کی جو کہا ہے بعض سلف نے کہ فرض نماز کے بعد بآواز ذکر و تکبیر کہنا مستحب ہے۔

متاخرین میں مستحب سمجھنے والوں میں ابن حزم ظاہری ہیں۔ابن بطال اور دیگر نے نقل کیا ہے کہ مذاہب متبوعہ والے بآواز بلند ذکر و تکبیر  کے عدم استحباب پر متفق ہیں۔

امام شافعی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کا یہ  مطلب لیا ہے کہ ذکر کا طریقہ سکھانے کے لیے کچھ وقت جہر کیا یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ جہر کرتے رہے ۔وہ کہتے ہیں نماز سے فراغت کے بعد امام و مقتدی  دونو ں کے لیے یہ بہتر سمجھتا ہوں  کہ وہ ذکر خفیہ کریں ‘اگر امام مقتدیوں کو تعلیم دینا چاہے تو جہر کر سکتا ہے‘لیکن کچھ وقت بعد پھر آہستہ کرے۔

اور احمد:(1/172) میں ابن حبان رقم(577)‘بیہقی نے شعب ایمان میں اور منذریرحمہ اللہ تعالی نے ترغیب و ترہیب(4/160)  میں سعد بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«خَيْرُ الذِّكْرِ الْخَفِيُّ، وَخَيْرُ الرِّزْقِ مَا يَكْفِي»

(اچھا ذکر وہ ہے جو خفیہ ہے اور اچھا رزق  وہ ہے جو کفایت کرے‘اس کی سند میں ضعف ہے کیونکہ اس میں محمد بن عبد الرحمان ابن ابی لبیہ ہے او ریہ کثیر الا رسال ہے اور اس میں اسامہ بن زید  ابن اسلم ہے جسے امام احمدرحمہ اللہ تعالی نے حافظے کی خرابی کی بناء پر ضعیف کہا ہے ۔ جیسے کہ مییزان میں ہے۔امام سیوطی نے الجامع میں اور عزیزی نے السراج ،میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور ابن حبان نے اس حدیث پر باب باندھا ہے :باب اخفاء الذکر،اور قیس بن عباد سے روایت آئی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تین چیزوں کو بآواز بلند کرنا مکروہ سمجھتے تھے ،جنائز ،قتال اور ذکر۔

امام محمد نے الیسر الکبیر (1/89)میں ذکر کیا ہے ،بحر الرائق :(5/57)۔امام طبرانی نے مرفوعا روایت کیا ہے جیسے کہ المجمع (3/29)، اور ابن کثیر :(2/219) میں ہے ، اور اس کی سند میں ضعف ہے جہالت راوی کی وجہ سے جیسے کہ ہے ضعیف الجامع رقم (1703)میں دیکھو السنن الکبری :(4/75)،الحاکم ،‎:(2/116) اور عمدۃللعنی:(14/245)۔فتح الباری :(2/259)میں ہے ’’بہتر یہی ہے کہ امام اور مقتدی ذکر خفیہ کریں لیکن اگر تعلیم کی ضرورت ہو (تو جہر کر سکتا ہے )‘‘۔

فتح القدیر :(2/49) میں ہے اذکار میں اصل اخفاء ہی ہے اور جہر کرنا بدعت ہے

البدیہ والنہایہ لابن کیثر:(1/270(، میں ہے کہ ابن بطال نے کہا ہے ،مذاھب اربعہ بآواز بلند تکبیر وذکر کرکے عدم استحباب پر ہیں سوائے ابن حزم کے ، اور امام شافعی نے اس حدیث کو تعلیم پر محمول کہا ہے ،رجوع کریں حاشیہ بخاری (1/116)۔اور الکبیر ی شرح منیۃ المصلی ص:(566) میں ہے :’’امام ابو حنیفہ کے نزدیک ذکر میں آواز بلند کرنا بدعت ہے اور اللہ  تعالی کے قول کے خلاف ہے ،(واذکر ربک فی نفسک تضرعا ودون الجھر)

اور اے شخص !اپنے رب کو یاد کیا کر اپنے دل میں،عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ)،اعراف:205)۔

سوائے اس کے جس کی تخصیص اجماع سے ہو جائے۔

مرقاۃ :(10/17)میں ہے ’’بعض علماء نے تصریح کی ہے کہ مسجد میں آواز بلند کرنا اگرچہ ذکر کے لیے کیوں نہ ہو حرام ہے ‘‘۔دیکھیں حاشیہ مشکوۃ :(2/470)۔

شرح مسلم للنووی :(1/311)میں ہے ’’دعا بلا خلاف آہستہ ہی کرنا چاہے‘‘۔فتاوی سراجیہ ص(72) میں ہے ،’’دعا میں مستحب اخفاء ہے اور بآواز بلند دعا کرنی بدعت ہے ‘‘۔غنیۃ المستعملی ص :(521) میں ہے ،’’امام ابو حنیفہ کہتے ہیں ہماری بحث مطلق ذکر میں نہیں ،ذکر کرنا  ہر وقت اچھی بات ہے بلکہ ہما ری بحث جہرا ذکر کرنے میں ہے تو ذکر کے ساتھ آواز کا بلند کرنا بدعت ہے کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے ،’’ تم لوگ اپنے رب سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کر کے بھی اور چپکے چپکے بھی‘‘۔ (اعراف:55)۔مگر شرع مستثنی کردے‘‘۔

اور مبسوط :(4/6) میں ہے :’’ہمارے نزدیک اذکار ودعا میں اخفاء مستحب ہے مگر جس کا اعلان مقصود ہو ۔ جیسے اذان اعلان کے لیے ہوتی ہے خطبہ وعظ کے لیے ہوتا ہے ،اور نماز کی تکبیرات مقتدیوں کو بتانے کے لیے ہوتی ہیں‘‘۔

عنایۃ علی ھامش فتح القدیر :(2/41) میں ہے ’’ ہمارے نزدیک دعا  و اذکارمیں اخفاء ہی مستحب ہے سوائے اس کے جس کا اعلان مقصود ہے ،الخ۔

اور البدائع والصنائع :(1/779) اور عمدۃ الرعایۃ حاشیہ شرح الوقایہ لمولانا عبد  لکھوی :،(1/246)میں بھی یہ مسئلہ مذکور ہے ۔

مولانا عبد الحیی کہتے ہیں:’’اصل ذکر میں اخفاء ہی ہے جیسے آیت:

﴿وَاذكُر‌ رَ‌بَّكَ فى نَفسِكَ تَضَرُّ‌عًا وَخيفَةً وَدونَ الجَهرِ‌ ...٢٠٥﴾...سورة الاعراف

کی دلالت ہے اور عبد الحیی میں (تکبیرات ) جہرا وارد ہے تو یہ اپنے موردہی میں مقصود رہیں گی‘‘

اور تفسیر مظہری:(3/407) میں ہے’’علماء نے اجماع  کیا ہے کع ذکر سری ہی افضل ہے اور جہری ذکر بدعت ہے مگر بعض   مخصوص جگہوں میں جہاں جہر کی ضرورت ہو  جہراً بھی جائز ہے جیسے اذان ‘اقامت‘ تکبیرات تشریق‘نماز تکبیرات انتقالات امام کے لیے جب ضرورت پڑے تو مقتدی کا سبحان اللہ کہنا اور حج مین تلبیہ وغیرہ‘پھر آگے کہا ‘اصل اذکار میں اخفا ہے اور جہراً اسکا بدعت ہے‘جب جہر میں تعارض واقع ہو جائے تو ترجیح اقل کو ہو گی۔

سری ذکر کرنے والے کی فضیلت پر صحابہ و تابعین کا اتفاق ہونے پر حسن کا یہ قول دلالت کرتا ہے‘’’سری دعا میں جہری دعا کی  نسبت ستر گنا کا فرق ہے۔مسلمان دعا میں بڑی  کوشش کرتے تھے لیکن ان کی آواز نہیں سنی جاتی تھی۔بلکہ ان کے اور ان کے رب کے درمیان کھسر پھیسر ہوتی تھی یہ اس لیے کہ اللہ تعالی ٰ فرماتے ہیں:

﴿ادعوا رَ‌بَّكُم تَضَرُّ‌عًا وَخُفيَةً ۚ ... ٥٥﴾...سورة الاعراف

(تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کر کے بھی اور چپکے چپکے بھی)

اور اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نیک بندے کا ذکر فرمایا ہے جس کا فعل انہیں اچھا لگا  تو فرمایا:

﴿إِذ نادىٰ رَ‌بَّهُ نِداءً خَفِيًّا ...٣﴾...سورة مريم

’’جبکہ اس نے اپنے رب سے چپکے چپکے دعا کی تھی‘‘

اور اسی طرح ذکر خفی کے افضل ہونے پر وہ احادیث دلالت کرتی ہے جسے امام احمد ‘امام ابن  حبان اور امام بیہقی نے سعد رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے((اچھا ذکر وہ ہے جو خفی ہے اور اچھا رزق  وہ ہے جو کافی ہو))‘

پھر فرمایا ہے’’فصل‘‘ جان لو کہ ذکر  کے تین مراتب  ہیں ‘ایک ذکر جہری ہے جس میں آواز بلند کی جاتی ہے تو یہ بالاجماع مکروہ ہے لیکن ضرورت ہو حکمت متقاضی ہو تو جہر کرنا  اخفاء سے بہتر ہو گا جیسے اذان اور تلبیہ  وغیرہ الخ۔

تفسیر کبیر:(13/131) میں ہے:’’چوتھی دلیل نبیصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول  ہے‘ایک سری دعا   علانیہ ستر دعاؤں کے برابر ہے ‘‘۔

میں کہتا ہوں : اس حدیث کو علی المتقی رحمہ اللہ تعالی نے کنز العمال:(2/75 برقم 3196) اور امام سیوطی نے جامع صغیر میں برقم:(2978) ذکر کیا ہے  اور سند اس کی ضعیف ہے‘اس طرح جامع میں بھی ہے۔

پھر امام رازی نے مسئلہ تامین میں دوسری حجت ذکر کی ہے ‘الخ۔

اور امام شوکانی کی فتح القدیر :(2/213)میں ہے :

’’کے داعی کا ایسی  چیز کا سوال کرنا جو اس کے لیے نہیں جیسے دنیا میں ہمیشہ رہنا یا کسی محال چیز کا اوراک کرنا ۔یا انبیاء کے مراتب تک پہنچنے کا مطالبہ کرنا ۔یا دعا میں آواز اونچی کرنا یہ سب دعا میں اعتداء کے زمرے میں آتی ہیں ‘‘۔

امام ابن قیم رحمتہ  اللہ نے ۔بدائع الفوائد :(3/6)میں فرماتے ہیں :اخفاء کے دعا کے متعدد فائدے ہیں :

پہلا فائدہ: یہ عظمت ایمان کی دلیل ہے کیونکہ خفیہ دعا کرنے والا جانتا ہے کہ اللہ اس کی خفیہ دعا سن رہا ہے ۔

دوسرا فائدہ: بلحاظ ادب وتعظیم خفیہ دعا میں عظمت ہے اسی لیے بادشاہوں سے اونچی آواز سے بات نہیں کی جاتی  اور نہ ہی اونچی آواز سے سوال کیا جاتا ہے ،ان کے پاس بقدر ان کے دھیمی آواز میں بات کی جاتی ہے اور اللہ تعالی کے لیے مثل اعلی ہے ۔پس اللہ تعالی خفیہ دعا بھی سنتا ہے تو آدب کا تقاضا ہے کہ اس کے حضور آواز کو پست کیا جائے۔

تیسرا فائدہ: خفیہ ذکر ودعا میں عاجزی اور خشوع زیادہ ہے جو روح کی غذا اور مقصود اور خلاصہ ہے ،عاجزی کرنے والا،خشوع کرنے والا ذلیل جب اللہ تعالی کے حضور میں مسکین کے مانگنے کی طرح سوال کرے گااور اس کا دل منکر ہو اس کے اعضاء میں تذلل ہو اور اس کی آواز میں خشور ہو تو اس کی ذلت ومسکینی اور انکساری اور عاجزی اس حد تک پہنپی ہو گی کہ بولنے میں اس کی زباان ساتھ  نہ دے رہی ہو تو اس کا سائل دل عاجزی کے ساتھ طالب ہو گا اور اس کی زبان ذلت ومسکنت اور عاجزی کی شدت کی وجہ سے ساکت ہوگی ،تو ایسی حالت میں دعا کے لیے آواز کیسے اٹھائی جاسکتی ہے ۔

چوتھا فائدہ: خفیہ مانگنے میں اخلاص ہے ’’قلب سلیم ‘‘بنانے میں مدد دیتی ہے ۔

پانچوں فائدہ: اخفاء دعا اللہ کی طرف توجہ میں دل کو جبکہ آواز اٹھانے سے دل افتراق وتشتت کی آما جگاہ بن لاتا ہے اۃر جب پست کرے گا تو اس کی محتاجی ،اور اللہ کے لیے جس سے وہ دعا کر رہاہے اس کی قصد و ہمت کی ماسوی اللہ سے تجرید بڑھے گی۔

چھٹا فائدہ: یہ انوکھا سری نکتہ ہے اور وہ یہ کہ اخفاء دلالت کرلا ہے کہ اس کا صاحب اللہ کے قریب ہے تو وہ اس سے قریب ہونے اور شدت حضور کی وجہ سے مانگتا ہے جیسے کوئی زیادہ قریب چیز سے مانگتا ہے تو وہ اس طرح مانگتا ہے جیسے کوئی قریب اپنے  قریب سے  مانگنے کہتے سر گوشی کرتا ہے کس بعید کا سے اونچی آواز سے مانگنے کی طرح نہیں،اس وجہ میں تفصیل طویل ہے ۔

ساتواں فائدہ : اس میں طلب وسوال کی مداومت کا داعیہ ذیادہ ہے نہ زبان میں ملال آئے گا نہ ہی جوارح تھکاوٹ کا شکار ہو نگے جبکہ آواز کو بلند کرنے کی صورت میں زبان کی روانی میں فرق آسکتا ہے اس کی مثال یہ ہے کہ جو اونچی آواز سے بتکرار پڑھتا ہے تو تادیر پڑھائی کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتا بخلاف اس کی جو دھیمی آواز سے پڑھے ۔

آٹھواں فائدہ:خفیہ دعا منفی قوتوں اور مشوشات سے بچائے رکھتی ہے ۔داعی جب آ ٖہستہ  دعا کرتا ہے تو کسی کو اس کا پتہ نہیں چلتا تو تشویش وغیرہ سے بچا رہتا ہے اور اگر اونچی آواز سے دعا کرے گا تو شریر  اور باطل روحیں اور خبیث جن کے رد عمل کی وجہ سے تشویش کا شکار ہوگا اور ان کی ممانعت و معارضت ضرور ہو گی اور کچھ نہیں تو ان کے متعلق کی وجہ سے اس کا مقصد وہمت متفرق ہو گا،جس سے دعا کا اثر کمزور ہو گا جو تجربہ کرتےرہتے ہیں انہیں اس کی معرفت ہوتی ہے ،پس جب دعاخفیہ اور سری کرے گے تو ان مفاسد سے امن میں رہیں گے۔

نواں فائدہ : یہ بہت بڑی نعمت ہے کہ انسان اللہ کی طرف  متوجہ ہو کر اس کی بندگی کرے ۔ اور ماسوی اللہ سے ناتا توڑ کر اسی کا ہو رہے اۃر یہ نعمت کا اس کے صغرو کبر میں قدر کے مطابق حاسد ہوا کرتا ہے تو مذکورہ نعمت جس طرح بڑی نعمت ہے تو اس سےمتعلق حاسد بھی اسی نسبت سے خطرناک ہوتے ہیں تو ان حاسدوں سے سلامتی کے لیے اس نعمت کے اخفاء سے بہتر کوئی صورت نہیں ،اور اس کا اظہار کا قصد ترک کردیا جائے۔

دسواں فائدہ: دعا اللہ سبحانہ وتعالی کا ذکر ہے اور اللہ تعالی نے اس کے اخفاء کا حکم دیا ہے:

﴿وَاذكُر‌ رَ‌بَّكَ فى نَفسِكَ تَضَرُّ‌عًا وَخيفَةً وَدونَ الجَهرِ‌ مِنَ القَولِ ...٢٠٥﴾...سورة الاعراف

(اور اے شخص !اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ) اللہ تعالی نے اپنے نبی کو دل میں یا دکرنے کا حکم دیا ہے  ۔مجاھد اور این جریج کہتے ہیں حکم دیا کہ وہ اسے اپنے سینوں میں عاجزی اور مسکینی کے ساتھ یاد کریں نہ کہ اونچی آواز سے اور چیخ چیخ  کر ....الخ۔یہ ایسے فوائد ہیں جو علماء کے ذہنوں میں کم ہی آتے ہیں ۔تو مبتدعین اور جہال کے ذہنوں میں کیسے آسکتے ہیں ۔وبا اللہ التوفیق. بحر الرائق :(1/159)میں ذکر ہے :’’ذکر آونچی آواز میں کرنا بدعت ہے اور آیت (اذکر ربک )، کے خلاف ہے ۔

تفسیر مدارک (2/93) میں ہے :’’آیت (واذکر ربک فی نفسک )الخ،اذکار،قراءۃ القرآن ، دعا ، تسبیح ، تھلیل وغیرہ ، سب کے بارے میں عام ہے ۔دیکھیں  ابن جریر:(9/167) ۔خازن:(2/33) ۔

0 معالم التنزیل:(2/226) تفسير كبير(15/108)  میں ہے:اللہ تعالیٰ کا قول:

﴿ َدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ﴾

  کا  مطلب یہ ہے کہ اپنے رب کا ذکر اس طرح کریں کہ اپنے آپ کے سنائے مراد ذکر لسانی کا حصول ہے۔ اور ذکر لسانی تب ہو گا کہ وہ اپنے آپ کو سنائے اس سے اس کے خیال پر اثر پڑے گا اور خیال کے متأ ثر ہونے سے ذکر قلبی روحانی حاصل ہوتی ہے۔

محمد بن محمد العماری اپنی تفسیر ابی السعود:(2/774) میں کہتے ہیں:’’یہ تمام اذکار میں عام ہے‘اخفا سے اذکار میں اخلاص پیدا ہوتا ہے اور اسے قبولیت کے قریب کے دیتا ہے‘‘۔دیکھیں مظہری:(3/509) ‘روح المعانی:(9/154)-

اور محمد بن اسحاق الدھلوی کے مائہ مسائل ص:(94/95) میں مفصل بیان ہوا ہے اور انہوں نے ذکر بالجہر کے بدعۃ سیئہ ہونے کی تصریح کی ہے اور صوفیاء کو اس سے منع کیا ہے اور اسی پر فقہی کتابوں کے حوالے ذکر کیے ہیں۔

عمدۃ القاری:(14/244)  میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث جو پہلے ذکر ہو چکی‘کے تحت لکھا ہے:

’’اس حدیث کا حاصل معنیٰ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذکر و دعا میں آواز  کو اونچی کرنے کو مکروہ سمجھتے تھے‘‘۔

فتح الباری:(6/101) اس حدیث کے تحت لکھا ہے:امام طبری کہتے ہیں:

’’اس حدیث میں ذکر و دعا کے وقت آواز بلند کرنے کی کراہت ہے۔صحابہ و تابعین میں سے اکثر سلف کا یہی قول ہے ‘‘۔

جنازہ میں بآواز بلند ذکر کرنے کی کراہت میں فقہا ء کی عبارات کے لیے ملاحظہ کریں! قاضی خان:(1/190) فتاویٰ سراجیہ :ص(63) ‘کبیری ص:(594) ‘ مرقاۃ(4/57) بحر الرائق :(3/192) (159) ‘نصاب الاحتساب ص(125) ‘ مسائل الاربعین ص: (43)۔

تکبیرات عیدین کے بارے میں انہوں نے کہا ہے کہ جہر بتکبیر بدعت ہے کم از کم مشروع کی حد تک مقصود رہے گی۔

قاضی خان علی ہاشم الہندیہ :(1/185)هدایہ:(1/155) هنديه (152)در المختار:(1/558) ‘ شامی:( 1/55) – (558) عینی شرح کنز ص: ( 50) ‘ البدئع والصنائع: ( 1/ 279) ‘مبسوط:(2/43) ‘ مدخل : ( 1/190)‘ نور الایضاح  ص :(119 ) ‘

طحاوی ص:(29) ‘ کبیری ص :(566) ‘بزازیہ علی ہامش الہدایہ: (4/77) مرقاة(2/357)-

اور اسي طرح اذكا ر كا خفيه کہنا مسنون ہے سوائے تلبیہ اور قنوت امام کے لیے الخ‘خلاصۃ الفتاویٰ:(1/342) شرح النقایہ:(1/130)، نووی شرح مسلم :(2/344)، کتاب الا ذکار :(8) ، فیض الباری :(2/315)-

بدرالدين ابو محمد عبد الله محمد بن علي البعلي الحنبلي مختصر الفتاوي ص:(92) میں کہتے ہیں :

’’مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور تمام دعائیں سری طور پر افضل ہیں ان میں آواز کو بلند کر نا بدعت ہے ‘‘الخ۔مرقات :(2/161)میں ہے :’’کیونکہ بآواز بلندکرنا کراہت ہے ‘‘۔  مزید تحقیق کے لیے مولانا سرفراز خان صاحب کا رسالہ ’’حکم الذکر بالجھر ‘‘ملاحظہ فرمائیں ۔

اس طرح یہ مسئلہ مکمل بیان ہوا ہے ۔

اب ہم مولانا عبد الحی الکھنوی کے رسالے ،’’سباحۃ الفکر فی الجھر بالذکر‘‘میں ذکر کردہ دلائل کا جواب ذکر کرتے ہیں لیکن ہم رسالے کی تمام احادیث کا جواب نہیں  ذکر کریں گے ۔ان میں  وہ احادیث جن میں ذکر مطلق ہے اۃر جہر کی قید سے خالی ہیں سے صرف نظر کریں گے ۔تو ہم کہتے ہیں:

پھلی حدیث :’’اگر  وہ میرا ذکر جماعت میں کریں گے تو میں اس کا ذکر اس بہتر جماعت (فرشتوں ) میں کرونگا‘‘اس حدیث میں ذکر سے مراد بیان اور دعوت ہے ، نہ جاہل متصوفین کے طر یقہ پر ذکر۔

اس طرح دوسری احادیث سے لیکر آٹھویں حدیث تک یہی جواب ہے ۔

بارھویں حدیث:

«اکثروا ذکر اللہ حتی یقول المنافقون انکم مراءون او یقال مجنون»

’’اللہ کا ذکر اسی کثرت سے کرو کہ منافقین تمھیں ریا کار یا دیوانہ سمجھیں‘‘

تو یہ حدیث ضعیف ہے ۔اس میں دراج ابو السمح اور الھیشم دونوں ضعیف ہیں ۔

اس کے ساتھ ساتھ اس میں جہر پر دلالت بھی نہیں،کیونکہ اگر کوئی اپنے رب کا ذکر جہرا کرے گا تو اسے مجنوں نہیں ،ذاکر کہا جائیگا اور جو ہونٹ ہلاتا ہے اور اپنے آپ سے باتیں کرتا ہے تو لوگ اسے مجنوں کہیں گے ۔

اکتیسویں حدیث :رات کو تہجد میں قرآن کی قرآءت کے بارے میں ہے اور قراءت جہرا افضل ہے ۔ جو آپ مکشوۃ:(1/200)میں مفصل حدیث میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔

اور حدیث ذی البجادین کہ وہ اونچی آواز سے ذکر کرتا ہے ۔تو یہ ضعیف ہے جیسے کہ ابوداؤد کتاب الجنائز میں ہے ۔

بیالیسویں حدیث:ایام تشریق کے ذکر کے بارے میں ہے جس میں جہر سنت ہے ۔

پھر مولانا عبد الحیی نے اپنے رسالے میں کہا ہے :’’اس مقام پر مقصد کا خلاصہ یہ ہے سر کا جہر سے افضل ہونے میں کوئی شک نہیں ،خو ف و تضرع کی وجہ سے ،اسی طرح حد سے بڑھ کر  جہر کے ممنوع ہونے میں بھی کوئی شک نہیں ،حدیث:’’اپنے آپ پر رحم کرو ‘‘کی وجہ سےاور غیر مفرط تو اس کے جواز میں احادیث ظاہر ہیں اور آثار میں مولفقت پائی جاتی ہے ‘‘۔

میں کہتا ہوں :عام اوقات کے ذکر میں اہل تصوف جس جہر کے مدعی ہیں صحابہ کے صریح آثار سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ الدین الخالص

ج1ص61

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ