السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حافظ سیف الرحمٰن بٹ خریداری نمبر 5393 لکھتے ہیں کہ امام کو دوران قراءت بعض آیات کاجواب خود دیناچاہیے یا مقتدی حضرات بھی باآواز بلند جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس سوال کا مفصل جواب اہل حدیث مجریہ 7 مارچ 2003ءشمارہ نمبر 10 میں شائع ہوچکا ہے۔اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادوران قراءت یہ معمول بیان کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تسبیح کی آیات تلاوت کرتے تو اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے اور جب کبھی سوال پرمشتمل آیت سے گزرتے توسوال کرتے، اسی طرح جب کبھی تعوذ کی آیات تلاوت کرتے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے۔(صحیح مسلم کتاب الصلوۃ المسافرین)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول اگرچہ صلوۃ اللیل سے متعلق ہےتاہم محدثین کرام نے عمل کے لحاظ سے اسے عام رکھا ہے۔یعنی جب بھی کوئی دوران نماز ایسی آیات کی تلاوت کرے جس میں اللہ کی تسبیح یا پناہ یا سوال کاذکر ہوتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پرعمل کرتے ہوئے اس وقت اللہ کی تسبیح کرے ، اللہ سے سوال کرے، نیز دینی اور دنیوی ضرر رسانی، نقصان اور خسران سے اللہ کی پناہ طلب کرے، دوران قراءت یہ ایک عام ہدایت ہے جس کا ہمیں خیا ل رکھنا چاہیے۔ واضح رہے کہ یہ ہدایت صرف قاری یعنی پڑھنے والے کے لئے ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع صرف اس معنی میں تمام افراد امت کے لئے عام ہے جب فرد کی حالت بھی وہی ہو جس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام سر انجام دیا ہے۔ بعض آیات کے جوابات کے متعلق مندرجہ ذیل گزارشات پیش خدمت ہیں۔
٭(سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) کی تلاوت کے وقت صرف امام کو سبحان ربي الاعليٰ کہنے کی اجازت ہے کیوں کہ یہ عمل متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت ہے۔ وہ جب اس آیت کی تلاوت کرتے تو جواب کے طور پر سبحان ربي الاعليٰ کہتے۔
٭ باقی جوابات پر مشتمل روایات محدثین کرام کے قائم کردہ معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں جن حضرات کے ہاں ضعیف روایات پر عمل کرنے کی گنجائش ہے وہ اگر انہیں عمل میں لانا چاہیں تو یہ قراءت کے وقت تو ہوسکتا ہے،جب کہ وہ خود تلاوت کررہے ہوں۔ مقتدی حضرات کے لئے جواب دینے کا جواز ان روایات سے ثابت نہیں ہوتا۔
٭(فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ) کاجواب خارج از نماز سنتے وقت دیا جاسکتا ہے کیوں کہ دوران نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلاوت فرمانا اور جنوں کاجواب دینا احادیث سے ثابت نہیں۔
٭ سورۃ الغاشیہ کے اختتام پراللهم حاسبني حسابا يسيرا جیسے کلمات سے جواب دیناانتہائی محل نظر ہے۔کیوں کہ کسی صحیح یا ضعیف روایت سے ثابت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات بطور جواب کہے ہوں بلکہ آپ ان کلمات کوبطور دعا پڑھتے تھے۔(مسند امام احمد :ج6 ص 48)
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں'' کہ اس دعا کو تشہد میں سلام سے پہلے پڑھا جاسکتا ہے۔انہوں نے اس دعا کو ان دعاؤں میں ذکر کیا ہے جو بوقت تشہد سلام سے پہلے پڑھی جاتی ہیں۔''(صفۃ الصلاۃ :ص201)
سورۃ الغاشیہ کے اختتام پر بطور جواب اس دعا کو پڑھنا کسی روایت سے ثابت نہیں ہے۔(واللہ اعلم)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب