سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(120) قنوتِ نازلہ فرض نمازوں میں پڑھنا

  • 11255
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1160

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی مدرسہ کے چند طلبا نے سوالات کیے ہیں کہ امت مسلمہ بالخصوص افغانستان شدید بحران کا شکار ہے ، اس سلسلہ میں ائمہ مساجد نے قنوت نازلہ کا اہتمام کررکھا ہے۔کیا اس قنوت نازلہ کو پانچوں نمازوں میں پڑھا جاسکتا ہے۔نیز بتائیں کہ قنوت نازلہ کی اصل دعا کیا ہے۔کیا اس میں اضافہ کیا جاسکتا ہے اور اسے کس حد تک لمبا کیاجاسکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں کوئی شک نہیں کہ امت مسلمہ آج شدید بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہے۔ اس میں اپنوں کی بے وفائی مفاد پرستی اور مصلحت کوبڑا دخل ہے۔ در اصل اغیار کی وحشت وبربریت کو نام نہاد مسلمانوں کی ہوس اقتدار نے حوصلہ دیاہے۔ ایسے حالات میں ہم کمزور ناتواں لوگ اللہ تعالیٰ سے دعا وپکار کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں۔ایسے سنگین اور ہنگامی حالات میں دوران نماز رکوع کے بعد بآواز بلند امام کا دعا کرنا اور مقتدیوں کا آمین کہنا قنوت نازلہ کہلاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت ہے۔ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم کے لئے دعا بد دعا کرتے تو رکوع کے بعد قنوت فرماتے۔(صحیح بخاری)

 اس لئے ائمہ مساجد کا یہ مستحسن اقدام ہےکہ انھوں نے ایسے کٹھن حالات میں قنوت نازلہ کا اہتمام کیا ہے۔اسے پانچوں نمازوں میں برقرار رکھنا چاہیے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ ظہر ،عصر،مغرب،عشاء اور فجر یعنی تمام نمازوں میں اہتمام کے ساتھ مسلسل قنوت نازلہ فرمائی۔(ابو داؤد :کتاب الصلوۃ باب القنوت فی الصلوات)

محدثین کرام نے اپنی کتب حدیث میں ہنگامی حالات کے پیش نظر پانچوں نمازوں میں قنوت نازلہ کا اہتمام کرنے کےلئے باقاعدہ باب قائم کئے ہیں۔چنانچہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک باب یوں قائم کیاہے۔’’باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوات‘‘اس قنوت نازلہ کو رکوع کے بعد باآواز بلند کرنا چاہیے اور مقتدی حضرات کا آمین کہنا بھی احادیث سےثابت ہے، جیسا کہ مسند اامام احمد، ابوداؤد اور مستدرک حاکم میں اس کی وضاحت موجود ہے، احادیث میں قنوت نازلہ بایں الفاظ میں منقول ہے:

''اللهم اغفرلنا وللمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات والف بين قلوبهم واصلح ذات بينهم وانصرهم علي عدوك وعدوهم اللهم العن الكفرة الذين يصدون عن سبيلك ويكذبون رسلك ويقاتلون اولياءك اللهم خالف بين كلمتهم وزلزل اقدامهم وانزل بهم باسك الذي لا ترده عن القوم المجرمين اللهم منزل الكتاب سريع الحساب ومجري السحاب اللهم اهزم الاحزاب وزلزلهم اللهم انج المستضعفين من المومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات اللهم اشدد وطاتك علي الذين كفروا واجعلها عليهم سنين كسني يوسف والق في قلوبهم الرعب وارسل عليهم رجزك وعذابك ''

اس کے علاوہ ہردعا پڑھی جاسکتی ہے۔جس کاہنگامی حالات سے تعلق ہے۔لادین حملہ آور بھارت امریکہ حکومت کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ مضر رعل ذکوان کانام لے کر ان کےلئے بد دعافرمائی تھی۔پھر ان سے نبرد آزماہونے والے مجاہدین کانام لے کر ان کی فتح ونصرت کے لئے دعا کی جاسکتی ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیاش بن ربیعہ، سلمہ بن ہشام اور ولید بن ولید کانام لے کر ان کے لئے دعائیں فرمائیں تھی۔(صحیح بخاری)

ہنگامی حالات سے غیر متعلق ادعیہ کا قنوت نازلہ میں پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ،اسی طرح ائمہ مساجد کو چاہیے کہ وہ مقتدی حضرات کا خیال رکھیں ،بے جاطوالت وتکرار سے اجتناب کریں۔البتہ خشوع اور خضوع چیزے دیگر است اسے بہرحال برقرار رہنا چاہیے، جب بھی ہنگامی حالات ختم ہوجائیں تو قنوت نازلہ کوترک کردینا بھی مسنون ہے۔چنانچہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے اہتمام سے ان ناتواں اور کمزور مسلمانوں کی نجات کے لئے دعا فرماتے تھے۔جو کفار کی قید میں صعوبتیں برداشت کر رہے تھے۔پھر آپ نے یہ سلسلہ موقوف کردیا تو عرض کیا گیا کہ اب آپ وہ دعائیں کیوں نہیں کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ کفار کی قید سے رہائی پاکر مدینہ آگئے ہیں۔(صحیح بخاری  وصحیح مسلم)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:152

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ