السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ملتان سے بیگم عبدا لاحد خریداری نمبر 1017 لکھتی ہیں کہ نماز تہجد کی گیارہ رکعات کس طرح ادا کی جائیں ،نیز اگر کسی وجہ سے نماز تہجد نہ پڑھی جائے تو اسے بطور قضا پڑھا جاسکتا ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر تہجد کی گیارہ رکعات ادا کرتے تھے،بعض اوقات تہجد سے پہلے دو رکعات بطور تمہید یا افتتاح کے ادا کرتے جو ہلکی پھلکی ہوتیں'اس طرح تہجد کی رکعات تیر ہ ہوجاتیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازتہجد مختلف انداز سے ادا کرتے تھے۔جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
٭ دو ،دو رکعات ادا کرنے کے بعد سلام پھیر دیا جائے ،آخر میں ایک وتر الگ پڑھ لیا جائے، عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد اس طرح ادا کرتے تھے۔(صحیح مسلم ،صلوۃ المسافرین 736)
پہلے دو رکعات الگ پڑھ لی جائیں، پھر نو رکعات اس طرح ادا کی جائیں کہ آٹھویں رکعت میں تشہد پڑھا جائے ، پھر کھڑے ہوکر ایک رکعت ادا کی جائے۔(صحیح مسلم ،صلوۃ المسافرین 746)
٭ پہلے دو دو کرکے چار رکعات ادا کی جائیں، پھر سات رکعات کی نیت کرکے آخری رکعت میں سلام پھیرا جائے۔(مسند امام ا حمد :ج3 ص239)
٭ پہلے دو دو کرکے چھ رکعات ادا کی جائیں ،پھر پانچ رکعت اس طرح ادا ہوں کہ آخری رکعت میں تشہد مکمل کرکے سلام پھیر دیا جائے۔(صحیح مسلم، صلوۃ المسافرین 737)
٭ پہلے آٹھ رکعات دو ،دو کرکے ادا کی جائیں، پھر تین وتر حسب ذیل طریقہ سے پڑھے جائیں:
1۔دو رکعت پڑھ کر سلام پھیردیا جائے اورایک وتر الگ پڑھا جائے،اسے فصل کا طریقہ کہاجاتا ہے۔(صحیح مسلم صلوۃ المسافرین 736)
2۔تین رکعات درمیان میں تشہد بیٹھے بغیر ادا کی جائیں اور آخری رکعت میں تشہد کو مکمل کرکے سلام پھیر دیا جائے۔ (مستدرک حاکم :ج1 ص 447)
اسے طریقہ وصل کہتے ہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس آخری طریقہ کے مطابق تین وتر ادا کرتے تھے۔امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اہل مدینہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے طریقہ کے مطابق نماز وتر پڑھتے تھے، اگر رات کو نیند کا غلبہ ہو یا نسیان کی وجہ سے تہجد یا وتر بھول جائیں تو اس کی ادائیگی کے متعلق علماء ئے کرام میں اختلاف ہے۔اما م ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وتر کی ادائیگی ضروری ہے، اس لئے ان کے نزدیک ان کی قضا بھی ضروری ہے، جبکہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہےکہ اگرتہجد یا وتر رہ جائیں تو انھیں بطور قضا نہیں پڑھنا چاہیے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:'' کہ اسے بطور قضا پڑھا جاسکتا ہے۔اس کے لئے وقت کی کوئی پابندی نہیں جب بھی بیدار ہو یا یادآئے تو اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔''ا س موقف کی بنیاد حدیث نبوی پر ہے۔(مستدرک حاکم :ج 1 ص 443)
صحیح موقف یہ ہے کہ اگر کسی کا وظیفہ شب رہ جائے تو اس کی قضا ضروری نہیں 'اگر پڑھنا چاہے تو اگلے دن ظہر سے پہلے پہلے اسے ادا کرے ،ا س صورت میں اسے رات کے وقت ادائیگی کا ہی ثواب ملے گا۔(صحیح مسلم، صلوۃ المسافرین:142)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ مبارک یہ تھا کہ جب نیند یا کوئی تکلیف قیام اللیل سے رکاوٹ بن جاتی تو دن میں بارہ رکعات ادا فرمالیتے تھے ۔(صحیح مسلم صلوۃ المسافرین 139)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب