السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ملتان سے حاجی محمد اسماعیل دریافت کرتے ہیں کہ آج کل بعض مقامات پر تہجد کی اذان دی جاتی ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں یہ اذان دی جاتی تھی؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں فجر کی دو اذانیں ہوتی تھیں ایک فجر سے پہلے، دو فجر کے بعد، اس میں رمضان یا غیر رمضان کی تخصیص نہیں ہے۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم '' کہ بلال رضی اللہ عنہ رات کو اذان دیتا ہے پس تم (سحری) کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دے۔''(بخاری ،کتاب الاذان)
اس حدیث سے قبل از فجر اذان دینے کا ثبوت ملتا ہے۔اما م بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:'' فجر سے پہلے اذان دینے کا بیان''لیکن یہ اذان نماز فجر کے وقت کا اعلان اور سامعین کوحضور جماعت کی دعوت دینے کے لئے نہیں ہے۔اسے تہجد کی اذان کہنے کی بجائے سحری کی اذان کہنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی غرض وغایت خود بیان فرمائی ہے'' کہ تہجد پڑھنے والا گھر لوٹ جائے اور گھر سونے والا بیدار ہوجائے۔''(صحیح بخاری)
ہمارے ہاں عام طور پر یہ اذان، فجر کی اذان سے کافی وقت پہلے کہہ دی جاتی ہے۔جو درست نہیں ہے کیوں کہ یہ سحری کرنے اور نماز فجر کی تیاری کے لئے ہے۔ان دونوں کاموں کے لئے چالیس پینتالیس منٹ کافی ہیں اور گھنٹوں پہلے یہ اذان دینا مناسب نہیں ہے۔حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ رمضان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ کیونکہ سحری کا تعلق صرف رمضان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے مہینوں میں بھی روزے رکھے جاسکتےہیں۔تفصیل کے لئے مرعاۃ المفاتیح:2/155 دیکھا جاسکتا ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب