السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لاہور سے شوکت علی لکھتے ہیں کہ ہم روزانہ شہر سے باہر کام کرنے کے لئے جاتے ہیں وہ تقریباً 9میل سے زائد سفرہے۔ڈیوٹی کے دوران جو نماز آئے گی اسے کیسے ادا کریں، نیز اپنے سسرال کے ہاں نماز کیسے ادا کی جائے گی جبکہ اس کا فاصلہ 9 میل سے زائد ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ سسرال کا گھر اپنا ہی گھر ہوتا ہے، لہذا نماز پوری پڑھی جائے، راہنمائی فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو لوگ محنت ومزدوری کے لئے روزانہ اتنی مسافت پرجاتے ہیں کہ جہاں نماز قصر کی جاسکتی ہے وہ ان لوگوں کی طرح ہیں جو ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں، ایسے لوگ شرعاً مقیم نہیں ہیں بلکہ مسافر ہیں اور ان پر سفر کے احکام لازم ہوں گے، لہذا احادیث نبویہ اور آیات قرآنیہ عام ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دائم السفر کو بھی قصر کرنا چاہیے ،اسی طرح وہ تجارت پیشہ حضرات جو تجارت کے لئے ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اس نے عرض کیا کہ میں تجارت پیشہ ہوں اور اپنے کاروبار کے لئے ہمیشہ بحرین کاسفر کرتاہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دورکعت یعنی نماز قصر ادا کرنے کا حکم دیا (مصنف ابن ابی شیبہ :448/2)
یہ روایت اگرچہ مرسل ہے تاہم عمومات کی تائید کے لئے اسے پیش کیاجاسکتا ہے چونکہ صورت مسئولہ میں مزدوری کرنے والوں کاسفر تقریباً 9 میل ہے، لہذا اتنی مسافت پرقصر کی جاسکتی ہے جیسا کہ یحییٰ بن یزید نامی ایک تابعی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نماز کے متعلق دریافت کیا کہ اسے کتنی مسافت پرقصر کرنا چاہیے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا حوالہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ کی مسافت پر نکلتے تو نماز قصر کرتے۔(صحیح مسلم:حدیث نمبر 1583)
محدثین کرام نے تین فرسخ کوترجیح دی ہے اور فرسخ لفظ فارسی فرسنگ کا معرب ہے جو تین میل کا ہوتا ہے، اس لحاظ سے تین فرسنگ نو میل کے ہوں گے،نیز اگر آدمی کے سسرال اتنی مسافت پر ہوں جہاں نماز قصر کی جاسکتی ہے تو اسے اپنے سسرال کے ہاں بھی قصر کرنی چاہیے، بعض اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:''جوشخص کسی شہر میں شادی کرے اسے وہاں مقیم جیسی نماز پڑھنی چاہیے۔''(مسند امام احمد :62/1)
لیکن یہ روایت قابل حجت نہیں ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:'' یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیوں کہ اس میں انقطاع ہے اور اس میں ایسے راوی بھی ہیں جو قابل حجت نہیں ۔(فتح الباری :2/570)
اس کی سند میں عکرمہ بن ابراہیم نامی راوی ضعیف ہے۔(نیل الاوطار :4/130)
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں نماز قصر کی ہے حالانکہ آپ کے سسرال مکہ مکرمہ میں تھے۔حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر تھے ،ان کی لخت جگر حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ تھیں۔نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ میں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی لیکن اس کے باوجود وہاں نماز کو قصر کے بغیر اد ا کرنے کا کہیں ذکر نہیں ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو سسرال کے ہاں نماز قصر پڑھنی چاہیے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب