السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بشیر احمد بذریعہ ای میل سوال کرتے ہیں کہ ایک آدمی صوم وصلوۃ کا پابند ہے مگر اس کی بیوی بے نماز ہے، کیا ان دونوں کا نکاح جائز ہے، کیا آدمی بے نماز بیوی کے ہاتھ سے تیار شدہ کھانا استعمال کرسکتا ہے، نیز کیا بے نماز کا ذبیحہ جائز ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیا جائے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز دین اسلام کا ایک اہم رکن ہے،قیامت کےدن بھی حقوق اللہ میں سے اسی کے متعلق سب سے پہلے سوال ہوگا۔ دانستہ نماز چھوڑدینے والے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:'' کہ بندے اور کفر کے مابین حد فاصل نماز ہے۔''(صحیح مسلم :کتاب الایمان)
البتہ متقدمین میں اس کے متعلق اختلاف ہے کہ ترک نماز جیسے سنگین جرم کی نوعیت کیاہے؟اکثر محدثین کا یہ موقف ہے کہ اس مقام پر کفر سے مراد''کبیرہ گناہ '' ہے جسے وہ ''کفر دون کفر'' سےتعبیر کرتے ہیں۔اس بنا پر جواز کی حد تک فتویٰ دیا جاسکتا ہے کہ نمازی پرہیز گار کانکاح بے نماز عورت سے جائز ہے لیکن اسے سمجھانے اور نماز کی تلقین کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔البتہ (الطيبات للطيبين) کے پیش نظر افضل یہی ہےکہ کسی دین دار اور پابند شریعت عورت کا انتخاب کرے ،اسی طرح جب اہل کتاب کا ذبیحہ استعمال کرنے کی اجازت ہے تو بے نماز کا ذبیحہ کیوں ناجائز ہوسکتا ہے؟بے نماز اگر بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر ذبح کرتا ہے تو اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، خوامخواہ شبہات میں نہیں پڑھنا چاہیے، بے نماز آدمی کے ساتھ فاسق وفاجر جیسا سلوک کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ لوگ انتہائی قابل نفرت ہیں، بامر مجبوری بے نمازعورت کا تیار کردہ کھانا کھایا جاسکتا ہے۔ اختیاری حالات میں پرہیز بہتر ہے تاکہ اس عورت کو اپنے کردار پر ندامت ہو،شاید اس کے ساتھ ایسا سلوک کرنے سے وہ اس جرم سے باز آجائے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب