سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(330) نماز عید کا حکم

  • 1124
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 995

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز عید کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

میری رائے میں نماز عید فرض عین ہے، لہٰذا مردوں کو نماز عید قطعاً نہیں چھوڑنی چاہیے بلکہ ضرور ادا کرنی چاہیے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے یہی نہیں بلکہ آپ نے پردہ نشین عورتوں کو بھی نماز عید کے لیے باہر نکلنے کا حکم دیا ہے مزید برآں آپ نے حائضہ عورتوں کو بھی (عید کی دعا میں شرکت کے لیے) نکلنے کا حکم مرحمت فرمایا ہے، البتہ وہ عید گاہ سے الگ تھلک رہیں گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز عید کی بہت زیادہ تاکید ہے۔ میں نے جو یہ کہا ہے کہ نماز عید فرض عین ہے تو یہی قول راجح ہے اور اسی کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار فرمایا ہے۔ لیکن یہ نماز جمعہ کی طرح ہے، جب فوت ہو جائے، تو اس کی قضا ادا نہیں کی جائے گی کیونکہ اس کی وجوب قضا کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اوراس کے بدلے کوئی نماز نہ پڑھی جائے، البتہ نماز جمعہ جب فوت ہو جائے تو اس کے بدلے نماز ظہر ادا کرنا واجب ہے کیونکہ وہ نماز ظہر کا وقت ہوتا ہے لیکن نماز عید کے فوت ہو جانے کی صورت میں اس کی قضا نہیں ہے۔

میری مسلمان بھائیوں کو نصیحت یہ ہے کہ وہ اللہ عزوجل سے ڈریں اور اس نماز کو قائم کریں جو خیر اور دعا پر مشتمل ہواکرتی ہے اور اس نماز کے موقع پر لوگوں سے ملنے اور ان سے الفت ومحبت کے ساتھ پیش آنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ اگر لوگوں کو لہو ولعب پر مبنی کسی اجتماع کی طرف دعوت دی جائے، تو وہ اس میں بڑے ذوق وشوق کے ساتھ شرکت کے لئے نکل پڑتے ہیں، جب کہ اس نماز میں شرکت کی دعوت تو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے اور اس سے انہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے وہ اجر و ثواب بھی ملتا ہے جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ عورتوں کے لیے واجب ہے کہ وہ جب اس نماز کے لیے آئیں، تو مردوں کی جگہ سے دور رہیں، مردوں سے دور مسجد کے کسی کنارے میں چلی جائیں اور زیب و زینت خوشبو وغیرہ کا استعمال نہ کریں اور اظہار حسن وجمال بھی نہ کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عورتوں کو عید کے لیے نکلنے کا حکم دیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! جب ہم میں سے کسی کے پاس اوڑھنی نہ ہو تو وہ کیا کرے! آپ نے فرمایا:

((لِتُلْبِسْہَا اُخْتُہَا مِنْ جِلْبَابِہَا)) (صحیح البخاري، الحیض، باب شہود الحائض العیدین ودعوۃ المسلمین… ح: ۳۲۴ وصحیح مسلم، صلاة المعیدین، باب ذکر اباحة خروج النساء فی العیدین، ح: ۸۹۰ (۱۲) واللفظ لہ۔)

’’اس کی بہن اسے اپنی اوڑھنی پہنا دے۔‘‘

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کو پردے کے اہتمام کے ساتھ عیدگاہ جانا چاہیے کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا گیا کہ اگر کسی عورت کے پاس جلباب نہ ہو تو آپؐ نے جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ وہ مقدور بھر پردے کے ساتھ نکلے بلکہ آپؐ نے یہ فرمایا: ’’اس کی بہن اسے اپنا جلباب پہنا دے۔‘‘

نماز عید پڑھانے والے امام کو چاہیے کہ مردوں کو خطبہ دینے کے بعد عورتوں کو بھی بطور خاص خطبہ دے، بشرطیکہ انہوں نے مردوں کا خطبہ نہ سنا ہو اور اگر انہوں نے مردوں کا خطبہ سن لیا ہو تو ان کے لیے بھی وہی خطبہ کافی ہے، البتہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ اس صورت میں خطبہ کے آخر میں عورتوں سے متعلق خاص احکام بیان کیے جائیں اور انہیں وعظ ونصیحت کی جائے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے موقع پر مردوں سے خطاب فرمانے کے بعد عورتوں کی طرف توجہ مبذول فرمائی تھی اور انہیں بھی وعظ ونصیحت فرمائی تھی۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ327

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ