السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بیماروں اور دیوانوں کے لیے عزائم ، حروز اوردم ، خواہ ان میں قرآن یا سنت یا کچھا اورلکھا ہوا اس کا لکھنا جائز ہے ؟شافی جواب سے نوازیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ مسئلہ مفصل گرز چکا اور اب ہم ھیئۃ کبارالعلماء:(1/15) اور اس طرح فتاویٰ الجنۃ الدائمۃ:(1/125)میں لکھا ہو فتویٰ ذکر تے ہیں ،وہ کہتے ہیں:’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن،اذکار اور ادعیہ کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دی ہےبشرطیکہ اس میں شرک نہ ہو اور نہ ایسا کلام ہو جس کا کفہوم سمجھ میں نہ آئے کیوں کہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے،وہ کہتے ہیں،ہم جاھلیت میں دم کیا کرتے تھے،تو ہم نے کہا اے اللہ کے رسول !صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مجھے اپنے دم سناؤ ایسا دم جس میں شرک نہ ہو کوئی حرج نہیں۔
علماء نے اجماع کیا ہے مذکورہ دم کے جواز پر اور اس کے ساتھ یہ عقیدہ بھی ہو کہ یہ سبب ہے اور اس میں اللہ کی تقدیر کے بغیر کوئی تاخیر نہیں۔
رہا کسی چیز کا گلے میں لٹکانا اور کسی شخص کے اعضاء میں سے کسی عضوکے ساتھ باندھنا
تو یہ اگر غیر قرآن سے ہو تو حرام بلکہ شرک ہے کیونکہ امام احمد اپنی مسند میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مے ایک شخص کے ہاتھ میں پیتل کا کڑا دیکھا تو فرمایا ،یہ کہا ہے ؟تو اس نے کہا :یہ کلائی کی بیماری کی وجہ سے ڈال رکھا ہے۔تو فرمایا:اسے اتار پھینک ،اس سے وہ بیماری اور زیادہ بڑھتی ہے اگر تجھے موت آجائے اور یہ ترے ہاتھ میں ہوتوکبھی بھی کامیاب نہ ہوگا۔(وسندہ لا باس بہ)
اور وہ جو عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من تعلق تمیمة فلا اتم له ومن تعلق ودعةفلا ودع الله له»
جس نے تمیمہ لٹکایا اللہ اس کی مراد پوری نہ کرے اور جس نے منکا لٹکایا اللہ اسے آرام نہ دے۔
شعیب الارناووط نے مسند احمد کے تعلیق میں اسے حسن حدیث کہا ہے۔
اور احمد کی ایک روایت میں ہے’’ من تعلق تمیمة فقد اشرك’’(جس نے تمیمہ لٹکایا اس نے شرک کیا)۔
وانظر الصحیحۃ رقم (492)(حدیث صحیح)
اور وہ جو امام احمد اور امام ابوداؤدعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے رزلیت کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ’’رقی‘‘ تمائم اور تولہ شرک ہے۔‘‘
اگرچہ آیات قرآن ہی لکھ کر ہی کیوں نہ لٹکائی ہوں‘یہ تین وجہ سے ممنوع ہے ۔
اول:احادیث نبوی میں نہی عام ہے اور اس کا کوئی تخصص نہیں۔
دوم:تا کہ ذرائع بند نہ ہوں اور نوبت اس کے علاوہ کے لٹکانے تک نہ پہنچے۔
سوم:جو کچھ لٹکا رکھا ہے بحالت قضائے حاجت ‘استنجا ء اور جماع اس کی اہانت کا خطرہ ہے۔رہا کسی سورت یا آیت کا تختی ‘مٹی یا کاغذ پر لکھنا اور اسے پانی یا زعفران سے دھو کر پلانا اور برکت ‘استفادہ علم‘کسب مال ‘صحت و عفیت وغیرہ کی امید رکھنا‘تو ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم نہیں کہ انہوں نے اپنے لیے یا کسی اور کے لیے ایسا کیا ہو یا صحابہ میں سے کسی نے اس کی اجازت دی ہو یا اپنی امت کو رخصت دی ہو حالانکہ اس کی ضرورت تھی۔
اور جہان تک ہمیں علم ہے نہ صحابہ میں سے کسی نے ایسا کیا اور نہ ہی رخصت دی‘تو اس کا ترک کرنا ہی بہتر ہے اور قرآن ‘اسماء حسنیٰ اور صحیح ثابت شدہ اذکار و ادعیہ جو شریعت میں ثابت ہیں‘کے ساتھ دم کرنا کافی سمجھنا چاہیے جس کا معنی بھی معلوم ہے اور اس میں شرک کا شائبہ بھی نہیں تا کہ ثواب کی امید ہو اور امر مشروع کے ساتھ اللہ کا تقرب حاصل کیا جا سکے۔اور اللہ اس کا غم دور کر دے اور اسے علم نافع عنایت کر دے ۔ اسی میں کفایت ہے اور جو مشروع چیز کے ساتھ استغنا کرتا ہے او اللہ اسے غیر شرعی چیزوں سے غنی کر دیتا ہے۔واللہ اعلم۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب