السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فاروق آباد سے سعید ساجد لکھتے ہیں کہ مسجد اہل حدیث دور ہونے کی وجہ سے ایک دوکاندار اپنی دکان پر نماز ادا کر سکتا ہے؟ نیزکیا وہ ظہر اور عصر عادتاً جمع کرسکتا ہے؟مدلل جواب دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کا تذکرہ بایں الفا ظ میں کیا ہے:'' کہ مسجدوں میں صبح وشام اس کی تسبیح ایسے لوگ پڑھتے ہیں جنھیں کوئی تجارت اور کوئی خریدوفروخت اللہ کی یاد سے اور نماز قائم کرنے اور زکوۃ دینے سے غافل نہیں کرتی ہے۔''(9/التوبہ:37)
آیت کریمہ میں نماز قائم کرنے سے مراد صرف نماز پڑھ لینا ہی نہیں بلکہ اس کے پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنا ہے، نماز کا یہ حق ہے کہ اسے باجماعت ادا کیا جائے۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:'' کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کے طریقے سکھائے ان ہدایت کے طریقے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس مسجد میں نماز ادا کی جائے،جس میں اذان دی جاتی ہے۔ اگر تم نماز اپنے اپنے گھروں میں پڑھو گے جیسے جماعت سے پیچھے رہنے والا یہ شخص (منافق) اپنے گھر میں پڑھ لیتا ہےتوتم اپنے نبی کی سنت چھوڑ دوگے۔اوراگر نبی کی سنت چھوڑ دو گے تو گمراہ ہوجاؤگے۔''(صحیح مسلم:کتاب المساجد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:'' کہ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے پختہ ارادہ کیا کہ میں لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں، پھر اذان کہلواؤں اور کسی شخص کو امامت کے لئے کہوں، پھر ان لوگوں کے گھر جلادوں جو نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوتے۔''(صحیح بخاری :کتاب الاذان)
حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا صحابی تھے۔انہوں نے اپنے اندھے ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت طلب کی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کیا تم اذان سنتے ہو؟ عرض کیا:جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''تو پھر نماز باجماعت ادا کرو۔''(صحیح مسلم :کتاب المساجد)
ایک شخص نابینا ہے اسے تو گھر میں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ہم لوگ جو آنکھ رکھتے ہیں، اذان بھی سنتے ہیں ،صرف دنیاوی کاروبار کی خاطر نماز دوکان پر پڑھ لیں اور باجماعت ادا نہ کریں۔قیامت کے دن ہمارا کیا حال ہوگا۔اس لئے ضروری ہے کہ نماز باجماعت ادا کی جائے۔حدیث میں ہے:'' نماز باجماعت سے سوائے کھلے منافق کے کوئی پیچھے نہیں رہتا ،بیمار بھی دو آدمیوں کے سہارے نماز ادا کرنے کے لئے صف میں کھڑا کیاجاتا تھا۔''(صحیح مسلم)
نمازوں کو ناگزیر قسم کے حالات اور شدید مجبوری کی صورت میں تو جمع کیا جاسکتا ہے۔جیسا کہ سفر ،خوف ،بیماری، بارش اور سخت آندھی یا اور کوئی ہنگامی ضرورت کے وقت دو نمازیں جمع کی جاتی ہیں ۔تاہم شدید ضرورت کے بغیر دو نمازوں کو جمع کرناجائز نہیں جیسے کہ کاروباری لوگوں کا عام معمول ہے کہ وہ سستی یا کاروباری مصروفیت کی وجہ سے ایسا کرلیتے ہیں، یہ صحیح نہیں بلکہ سخت گناہ ہے، بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ عذر کے بغیر نمازوں کو جمع کرنا کبیرہ گناہ ہے۔(بیہقی ؛3/169)ہر نماز کو اس کے وقت پر ہی ادا کرناضروری ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب