السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عذر کے بغیر دو نمازوں کو جمع کیا جاسکتا ہے؟نیز اگر مقیم ہونے کی صورت میں بوجہ بارش مغرب کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ لی جائے تو مغرب کی سنتیں پڑھیں گے یا نہیں اور عشاء کی سنتیں بھی پڑھنی ہوں گی یا نہیں؟(فیصل نذیر۔ ڈجکوٹ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دو نمازوں کو کسی سبب کی بنا پر جمع کیا جاسکتا ہےجیسا کہ سفر وخوف یا بارش آندھی یا بیماری و غیرہ۔لیکن بلاوجہ نمازوں کو جمع کرنا درست نہیں۔بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بلاوجہ نمازوں کو جمع کرنے کو کبیرہ گناہ میں شمار کیا ہے۔اگرچہ ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً بھی اس قسم کی روایت مروی ہے۔ لیکن وہ حنش بن قیس راوی کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے۔پھر سنن ونوافل کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن مقیم ہونے کی صورت میں پہلی نماز کے بعد والی سنتیں نہیں پڑھنی چاہئیں، مثلا ظہر اور عصر کو جمع کیا ہے توظہر کی آخری سنتیں اور اگر مغرب وعشاء کو جمع کیا ہےتو مغرب کی دو سنتیں نہ پڑھی جائیں، البتہ عشاء کے بعد کی دو سنتیں اور وتر وغیرہ پڑھنے چاہئیں۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ انہوں نے بصرہ میں ظہر اور عصر جمع کرکے ادا کیں اور ان کے درمیان کچھ نہ پڑھا، پھر مغرب اور عشاء کو جمع کرکے پڑھا ،ان کے درمیان بھی کچھ نہ پڑھا ،آپ نے کسی مصروفیت کی بنا پر ایسا کیا ،پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات اکھٹی پڑھی تھیں، آپ نے درمیان میں کچھ نہ پڑھا تھا۔(سنن نسائی ،کتاب المواقیت، باب الجمع بین الصلواتین فی الحضر)
اس حدیث کے پیش نظر حضر میں بوقت جمع پہلی نماز کی بعد والی سنتیں چھوڑ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔مغنی ابن قدامہ میں اس مسئلہ کے متعلق سیر حاصل بحث کی گئی ہے دیکھئے۔(ج3 ص 127 تا 140)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب