السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب امام خطبہ دے رہا ہو تو سلام کہنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور سلام کا جواب دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
انسان( جب مسجد میں) آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ ہلکی پھلکی دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھ جائے اور کسی کو سلام نہ کہے۔ اس حال میں لوگوں کو سلام کہنا حرام ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((اِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِک أنصتَ یَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ یَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ))( وصحیح البخاري، الجمعة، باب الانصات یوم الجمعة والامام یخطب، ح: ۹۳۴، وصحیح مسلم، الجمعة، باب فی الانصات یوم الجمعة في الخطبة، ح: ۸۵۱ (۱۱) واللفظ لمسلم۔)
’’جب جمعہ کے دن دوران خطبہ تم اپنے ساتھی سے یہ کہو کہ خاموش ہو جاؤ تو بھی تم نے لغو کام کیا۔‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
((وَمَنْ مَسَّ الْحَصٰی فَقَدْ لَغَا)) (سنن ابي داؤد، الصلاة، باب فضل الجمعة، ح: ۱۰۵۰، وجامع الترمذي، الصلاة، باب ماجاء في الوضوء یوم الجمعة، ح:۴۹۸۔)
’’جس نے کنکری کو چھوا، اس نے لغو کام کیا۔‘‘
اس لغو کام سے جمعے کا ثواب ختم بھی ہو سکتا ہے، اسی لیے حدیث میں آیا ہے:
((وَمَنْ لَغَا فلا جمعة له)) (سنن ابی داؤد، الصلاة، باب فضل الجمعة، ح: ۱۰۵۱۔)
’’جس نے لغو کام کیا، اسے اس کوجمعہ سے کچھ حاصل نہ ہوا۔‘‘
اگر کوئی تمہیں سلام کہے تو تم الفاظ کے ساتھ اس کا جواب نہ دو، یعنی اسے وعلیک السلام نہ کہو، خواہ اس نے تمہیں السلام علیک کے الفاظ کہے ہوں، البتہ مصافحہ کرنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ زیادہ بہتر ہے کہ مصافحہ بھی نہ کیا جائے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ بندہ سلام کا جواب دے سکتا ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اسے سلام کا جواب نہیں دینا چاہیے کیونکہ خطبہ سننے کا وجوب سلام کا جواب دینے کے وجوب سے مقدم ہے، پھر کسی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس حالت میں سلام کرے کیونکہاس کا سلام کرنا لوگوں کو خطبہ سننے سے دوسری طرف مشغول کر دے گا جبکہ خطبہ سننا واجب ہے، لہٰذا صحیح بات یہ ہے کہ جب امام خطبہ دے رہا ہو تو نہ تو سلام کیا جائے اور نہ ہی سلام کا جواب دیا جائے۔[1]
انسان( جب مسجد میں) آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ ہلکی پھلکی دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھ جائے اور کسی کو سلام نہ کہے۔ اس حال میں لوگوں کو سلام کہنا حرام ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
«إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِک أنصتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ» (وصحيح البخاري، الجمعة، باب الانصات يوم الجمعة والامام يخطب، ح: ۹۳۴، وصحيح مسلم، الجمعة، باب فی الانصات يوم الجمعة فی الخطبة، ح: ۸۵۱ (۱۱) واللفظ لمسلم)
’’جب جمعہ کے دن دوران خطبہ تم اپنے ساتھی سے یہ کہو کہ خاموش ہو جاؤ تو بھی تم نے لغو کام کیا۔‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
«وَمَنْ مَسَّ الْحَصٰی فَقَدْ لَغَا» (سنن ابي داؤد، الصلاة، باب فضل الجمعة، ح: ۱۰۵۰، وجامع الترمذي، الصلاة، باب ماجاء فی الوضوء يوم الجمعة، ح:۴۹۸)
’’جس نے کنکری کو چھوا، اس نے لغو کام کیا۔‘‘
اس لغو کام سے جمعے کا ثواب ختم بھی ہو سکتا ہے، اسی لیے حدیث میں آیا ہے:
«وَمَنْ لَغَا فلا جمعة له» (سنن ابي داؤد، الصلاة، باب فضل الجمعة، ح: ۱۰۵۱)
’’جس نے لغو کام کیا، اسے اس کوجمعہ سے کچھ حاصل نہ ہوا۔‘‘
اگر کوئی تمہیں سلام کہے تو تم الفاظ کے ساتھ اس کا جواب نہ دو، یعنی اسے وعلیک السلام نہ کہو، خواہ اس نے تمہیں السلام علیک کے الفاظ کہے ہوں، البتہ مصافحہ کرنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ زیادہ بہتر ہے کہ مصافحہ بھی نہ کیا جائے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ بندہ سلام کا جواب دے سکتا ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اسے سلام کا جواب نہیں دینا چاہیے کیونکہ خطبہ سننے کا وجوب سلام کا جواب دینے کے وجوب سے مقدم ہے، پھر کسی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس حالت میں سلام کرے کیونکہاس کا سلام کرنا لوگوں کو خطبہ سننے سے دوسری طرف مشغول کر دے گا جبکہ خطبہ سننا واجب ہے، لہٰذا صحیح بات یہ ہے کہ جب امام خطبہ دے رہا ہو تو نہ تو سلام کیا جائے اور نہ ہی سلام کا جواب دیا جائے۔(1)
(1)حضرت الشیخ رحمہ اللہ کی اس رائے سے اتفاق ممکن نہیں، اس لیے کہ دل میں سلام کا جواب دینے سے خطبے کے سماع میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ البتہ بالجہر جواب دینا سماع میں خلل کا باعث ہے، اس لیے بالجہر تو یقینا ناجائز ہوگا، لیکن آہستگی سے جواب دینے میں ممانعت کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب