السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ٹبہ سلطان سے فیصل محمود لکھتے ہیں کہ ہماری مسجد کے امام ایک عالم دین ہیں لیکن اہل جماعت کو ان سے کچھ اختلافات ہیں جن کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔بحالت نماز منہ میں بیڑا رکھتا ہے۔
2۔مسجد میں بیٹھ کر فحش گندی گالیاں دیتا ہے۔
3۔صوم وصلوۃ کی پابندی نہیں کرتا۔
4۔ قرآن اٹھا کر جھوٹی گواہی کا مرتکب ہے۔ کیا ایسے حالات میں اس کی امامت درست ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال واضح ہو کہ اگر مذکورہ باتیں کسی عالم دین میں پائی جاتی ہیں تو انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت ہیں اور یہ تمام فسق وفجور اور کبیرہ گناہوں کے زمرہ میں آتی ہیں، جن کاارتکاب کسی بھی صورت میں درست نہیں ۔اس قسم کا انسان امامت کے قطعاً قابل نہیں ہے۔حدیث میں ہے:'' تم اپنے بہترین لوگوں کو امام بناؤ۔کیوں کہ یہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان رابطہ ہیں۔''(بیہقی:3/90)
اس کی سنداگرچہ ضعیف ہے۔تاہم اس کی تائید میں متعدد روایات ملتی ہیں مثلاً
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری نماز شرف قبولیت سے نوازی جائے تو اپنے میں سے بہتر امام کا انتخاب کرو۔''(مستدرک حاکم :4/222)
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک امام کو صرف اس لئے امامت سے معزول کردیا تھا کہ اس نے بحالت نماز قبلہ کی طرف تھوکا تھا۔(ابو داؤد کتاب الصلوۃ)
اگرچہ ائمہ دین نے فاسق وفاجر کی امامت کو صحیح قرار دیا ہے تاہم انھوں نے یہ بھی تلقین کی ہے کہ عام حالات میں ایسے لوگوں کی امامت کو برقرار رکھنا درست نہیں ہے۔ لہذااگر مقتدی حضرات اسے تبدیل کرسکتے ہیں تو کسی پسندیدہ انسان کو اس منصب پر فائز کریں۔ بہتر تو یہ ہے کہ ایسا امام خود امامت سے الگ ہوجائے جسے مقتدی اچھا نہ سمجھتے ہوں اگر وہ امامت نہیں چھوڑنا چاہتا تو اسے ناگفتہ حالت پر ضرور نظر ثانی کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ ہمارے ائمہ کرام کو عمل کی توفیق دے۔آمین
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب