السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خانیوال سے عبدالحمید صاحب دریافت کرتے ہیں کہ نماز کے بعد تسبیحات دائیں بائیں دونوں ہاتھوں پر کی جاسکتی ہیں یا صرف دایاں ہاتھ ہی استعمال کرنا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تھا کہ پسندیدہ اور خیر وبرکت کے کام دائیں ہاتھ سے بجا لاتے، مثلا :کھانا پینا وغیرہ ،البتہ کراہت پر مبنی کاموں کے لئے بایاں ہاتھ استعمال فرماتے جیسا کہ ناک صاف کرنا یا استنجا وغیرہ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی المقدور اپنے تمام کام (پسندیدہ کام) بجا لانے میں دائیں جانب کو پسند کرتے تھے ،وضو کرنے، کنگھی پھیرنے اور جوتا پہننے میں بھی دائیں جانب کو پسند کرتے تھے۔''(صحیح بخاری کتاب الصلوۃ، حدیث نمبر 426)
تسبیحات میں خیر وبرکت کا پہلو نمایاں ہے، اس لئے انہیں دائیں ہاتھ سے کرنا چاہیے ،کتب حدیث میں اس کے متعلق نص صریح بھی منقول ہے،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:'' میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ تسبیحات کہتے وقت وہ دائیں ہاتھ سے گرہ لگاتے تھے۔''(ابو داؤد،ابواب الوتر التسبیح بالحصی)
واضح رہے کہ امام ابو داؤد نے اس روایت کو اپنے دو اساتذہ عبید اللہ بن عمر اور محمد بن قدامہ سے بیان کیا ہے مذکورہ الفاظ دوسرے شیخ محمد بن قدامہ نے نقل کیے ہیں اورعبید اللہ بن عمر '' یعقد التسبیح'' پر روایت ختم کردیتے ہیں۔چونکہ ثقہ راوی کا اضافہ قبول ہوتا ہے اس لئے امام منذری نے جب ابوداؤد کی تلخیص کی تو انہوں نے وفي رواية بيمينه کے الفاظ بیان کیے ہیں۔(مختصر ابی داؤد ج1 ص 147)
اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح ابو داؤد میں '' يعقد التسبيح بيمينه'' کے الفاظ سے روایت بیان کی ہے۔(صحیح ابو داؤد حدیث نمبر 1330)
یہ وضاحت اس لئے کی گئی ہے کہ بعض اہل علم ان الفاظ کو ابن قدامہ کا استنباط قرار دیتے ہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب