السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رحیم یار خان سے محمد ادریس لکھتے ہیں کہ نماز کے اوقات اور ان کی ادائیگی کاطریق کار سکھانے کے لئے حضرت جبرائیل علیہ السلام دو دن مسلسل آتے رہے کیا مکی دور کے طریقے کار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں نماز کی ادائیگی کے متعلق کوئی فرق تھا تو اسے واضح کیا جائے جیسا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نماز میں رفع الیدین پہلے تھا، بعد میں منسوخ کردیا گیا، قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کے پاس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواوقات و طریقہ نماز بتانے کے لئے حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو نماز کے متعلق کچھ نئے احکام نازل ہوئے اور کچھ احکام ایسے بھی تھے کہ جن کی مدت ختم ہونے پر انہیں ختم کردیاگیا۔ مثلاً دوران نماز پہلے کسی ضرورت کے پیش نظر گفتگو کرنے کی اجازت جسے منسوخ کردیا گیا ۔چنانچہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
'' کہ ہمیں پہلے دوران نماز گفتگو کی اجازت تھی ،پھر جب آیت نازل ہوئی کہ اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔''(بخاری کتاب العمل فی صلاۃ باب ما ینھی من الکلام فی الصلوۃ ، رقم 1200)
پھر ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا۔
اسی طرح سلام پھیرتے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے تھے،جیسا کہ گھوڑا اپنی دم کو ہلاتا ہے، تاہم بعد میں اس سے منع کردیا گیا۔
''نماز کی رکعات پہلے دو دو تھیں، بعد میں ظہر، عصر اور عشاء کی نماز جب حضر میں پڑھی جائے تو اس میں مزید دو رکعات کا اضافہ کردیا گیا، البتہ سفر کی نماز کواپنی حالت پر برقرارر کھا گیا۔''(مسلم کتاب الصلوۃ باب الامر بالسکون فی الصلاۃ ، رقم 968)
لیکن رفع الیدین ایک ایسی سنت ثابتہ ہےجس میں کسی وقت کسی صورت میں نسخ ثابت نہیں ہے۔رفع الیدین کے چار مواقع ہیں:تکبیر تحریمہ کے وقت، ر کوع جاتے وقت، رکوع سے سر اٹھاتے وقت اورتیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت، تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین پر تمام امت کا اجماع ہے۔اور باقی تین مقامات میں رفع الیدین کرنے پر بھی اہل کوفہ کے علاوہ تمام علماء ئے امت کا اتفاق ہے ۔بقول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اظہار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا اتباع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بھر اس سنت پرعمل کیا، اس سنت کو عشرہ مبشرہ کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی بیان کرتے اور اس پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں ،اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سبیل المومنین کی اتباع کے پیش نظر تمام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ رکوع جاتے، اس سے سر اٹھاتے وقت اللہ کی عظمت کا اظہار کرتے ہوئے رفع الیدین کریں ۔اس کے علاوہ دعویٰ نسخ یامنافی سکون کا شوشہ، عدم ودوام کاشاخسانہ ،سنت غیر موکدہ کی تحقیق، غیر فقیہ راویوں کا غیر درایتی نکتہ یہ سب بے بنیاد باتیں ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سنت کو ثابت کرنے کےلئے ایک مستقل رسالہ’’جز رفع الیدین ‘‘ لکھا ہے جو استاذی المکرم حضرت شاہ بدیع الدین راشدی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق سے مطبوع ومتداول ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب