سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) جماعت کے بعد اپنی نماز الگ پڑھنا

  • 11186
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-09
  • مشاہدات : 1047

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ملتان سے عبدالغفور لکھتے ہیں کہ ایک آدمی نماز فجر کی جماعت کے بعد مسجد میں آتا ہے اور اپنی الگ نماز پڑھ لیتا ہے۔اس کے بعد ایک مولانا کے ہمراہ چندآدمی آتے ہیں اور نماز فجرکی دوسری جماعت کراتے ہیں۔اپنی الگ نماز پڑھنے والا پہلا شخص بھی ان کے ساتھ شامل ہوجاتا ہے۔حالانکہ نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی د وسری نماز نہیں ہوتی ،قرآن وحدیث کی رو سے ایسا کرنا جائز ہے؟وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ نماز فجر پڑھنے کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز جائز نہیں ہے ،البتہ کسی وجہ سے گھر میں نماز فجر ادا کرلینے کے بعد اگر مسجد میں وقت مقررہ پر نماز باجماعت مل جائے تو جماعت میں شامل ہوجانا چاہیے، یہ دوسری نماز نفل ہوگی۔یہ ایک استثنائی صورت ہے۔چنانچہ حضرت یزید بن اسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد خیف میں نماز فجر پڑھائی ،سلام پھیرنے کے بعد آپ نے دو آدمیوں کو دیکھا جو جماعت میں شامل نہیں ہوتے تھے، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ فجر کی نماز گھر میں پڑھ آئے ہیں۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

''کہ اگر تم نے گھر پرنماز ادا کی ہو، بعد میں امام کے ساتھ جماعت بھی مل جائے تو جماعت کے ساتھ بھی اس نماز کو ادا کرلو او ر تمہاری یہ دوسری نماز نفل ہوتی۔''(مسند امام احمد :6/191)

لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلی جماعت وہ ہو جو وقت مقررہ پر ادا کی جاتی ہے، کیوں کہ اس کے ساتھ دانستہ شامل نہ ہونے کی صورت میں کئی قسم کے شکوک وشبہات پیدا ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح اگر فتنہ و فساد کا اندیشہ ہوتو بھی ایسا کیا جاسکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کوفرمایا تھا:

''اگر حکام وقت نماز کو تاخیر سے پڑھیں تو بروقت نماز ادا کرلینا اس کے بعد اگر نماز باجماعت کاموقع ملے گوان کے ساتھ بھی پڑھ لینا یہ دوسری نماز تیرے لئے نفل ہوگی۔''(صحیح مسلم)

صورت مسئولہ میں اصل جماعت ہوچکی ہے اور آدمی نے نماز فجر انفرادی طور پر ادا کرلی ہے، اس کے بعد دوسری جماعت میں اسے شمولیت کی دعوت دی گئی ہے۔چونکہ اس نے نماز پہلے پڑھ لی ہے۔ا س لئے جماعت ثانی میں اس کا شامل ہونا ضروری نہیں ہے، کیوں کہ اس دوسری جماعت میں شامل نہ ہونے سے کسی قسم کے شکوک وشبہات پیدا نہیں ہوسکتے۔جیسا کہ پہلی جماعت میں شمولیت نہ کرنے سے ان کا اندیشہ تھا، اس سلسلہ میں یہ کہنا کہ نیت بدلی جاسکتی ہے کہ پہلی نماز کو نفل اور جماعت والی کو فرض قرار دے دیا جائے،یہ بھی غلط ہے کیوں کہ اس صورت میں دوسری نماز ہی نفل قرار پائے گی ،جیسا کہ احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:102

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ