السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بدین سے اشفا ق احمد لکھتے ہیں کہ اذکار ماثورہ نامی ایک کتاب میں حصن حصین کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب کسی شخص کوجنگل یاویرانے میں بھوت پریت گھیر لیں تو بآواز بلند اذان دے اور آیت الکرسی پڑھے، کیا ایسا کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے ؟ اگر یہ بات صحیح ہے تو عورت ایسے موقع پرکیا کرے کیوں کہ وہ تو اونچی آواز سے اذان نہیں دے سکتی۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے ہاں اوراد ووظائف کے متعلق جتنی بھی کتب تالیف کی گئی ہیں ان میں صحت روایات کا التزام بہت کم کیا گیا ہے، اذکار ماثورہ نامی کتاب جو محض صدقہ جاریہ کے طور پرشائع کی گئی ہے اس کابھی یہی حال ہے۔ مرتب نے روایات کی چھان پھٹک نہیں کی۔ سوال میں جس روایت کا حوالہ دیا گیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ'' جب تم کو جن بھوت مختلف صورتوں میں ہراساں کریں تو بلند آواز سے اذان دیا کرو۔'' ہمارے ہاں جو مصائب اورشدائد کے وقت اذانیں دینے کا رواج ہے وہ بھی غالباً اس روایت کی وجہ سے ہے، مثلا ً بارش برسنے لگے یا حکمران غلط کام کرنے لگیں تو اذانوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ اس کی اور اس طرح کی دیگر روایات کی اسنادی حیثیت واضح کردی جائے۔ کتب حدیث میں یہ روایت متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ، ہشام بن ہارون بواسطہ حسن بصری حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ''جب تمھیں جن بھوت پریشان کریں تو بآواز بلند اذان دیا کرو۔''(مصنف ابن ابی شیبہ :10/397)
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کو انہی راویوں سے نقل کیا ہے۔لیکن اس کے الفاظ یہ ہیں:'' تم اذان دینے میں جلدی نہ کیاکرو۔''(مسند احمد :3/305)
اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں لیکن اتصال سند ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں ہے۔ یعنی اس میں بایں طور پر انقطاع ہے کہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے، جیسا کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ابو حاتم اور البزار کے حوالہ سے لکھا ہے۔(الاحادیث الضعیفہ :3/277)
2۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ یونس بواسطہ حسن بصری حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جب ہمارے سامنے جن بھوت ظاہر ہوتو ہم اذان دیں۔(مجمع الزوائد :10/134)
اس روایت میں بھی انقطاع کی علت موجود ہے۔کیوں کہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا سماع حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت نہیں ہے۔ جیسا کہ علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے محدث البزار کے حوالہ سے لکھا ہے:'' یہ روایت بایں طریق صرف حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے بواسطہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ منقول ہے اور ہم نہیں جانتے کہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے کچھ سنا ہے۔''(الاحادیث الضعیفہ:3/277)
علامہ ہیثمی لکھتے ہیں کہ''اس روایت کے راوی ثقہ ہیں لیکن ہماری معلومات کے مطابق حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی نہیں سنا ہے۔''(مجمع الزوائد :10/134)
اس روایت کو عمرو بن عبید بواسطہ حسن بصری حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بایں الفاظ بیان کرتے ہیں'' کہ جب تمھیں جن بھوت پریشان کریں نماز کے لئے اذان دو۔''(میزان الاعتدال :3/276)
اس روایت میں مذکورہ بالا خرابی عدم اتصال کے علاوہ مزید یہ ہے کہ عمر و بن عبید جو شیعہ راوی ہے اس کا سماع بھی امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت نہیں ہے۔امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے متروک الحدیث کہا ہے اور یحیٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ا س کی بیان کردہ احادیث لکھنے کے قابل نہیں ہیں۔(الکامل لابن عدی :5/1751)
3۔عبدا اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عمر بن صبح بواسطہ مقاتل بن حیان عن نافع عن ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ جب جن بھوت تمھیں تنگ کریں تو اذان دینے کا اہتمام کرو۔''(الکامل لابن عدی :5/1785)
حافظ بن عدی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کے متعلق خود وضاحت کرتے ہیں کہ اس حدیث کا کچھ متن مذکورہ سند کے ساتھ صرف عمر بن صبح عن مقاتل مروی ہے اور یہ راوی ''منکر الحدیث'' ہے ۔یعنی یہ راوی غیر معروف روایات بیان کرنے میں مشہور ہے۔(الکامل ابن عدی :5/1673)
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اس راوی کے متعلق لکھتے ہیں کہ'' یہ راوی ثقہ نہیں اور نہ ہی امانت دار ہے۔''(میزان لاعتدال 30/ 206)
امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ'' یہ حضرت ثقہ راویوں کے نام سے حدیث بنایاکرتے تھے۔''(تہذیب 30/407)
امام دارقطنی نے اسے متروک اور علامہ ازدی نے اسے کذاب قرار دیا ہے۔(میزان الاعتدال :3/207)
4۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ'' جب جن بھوت مختلف صورتوں میں تمہارے سامنے آئیں تو باآواز بلند اذان دو کیونکہ شیطان جب اذان سنتا ہے تو گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے۔''(مجمع الزوائد :10/134)
اس روایت میں ایک راوی عدی بن فضل ہے جوسہیل بن صالح سے روایت کرتاہے اور عدی متروک ہے جیسا کہ علامہ ہیثمی نے لکھا ہے۔(مجمع الزوائد :10/134)
عدی بن فضل کے متعلق امام جوزجانی لکھتے ہیں کہ لوگوں نے اس کی روایت کو قبول نہیں کیا۔(احوال الرجال :109)
اس روایت میں جو مزید الفاظ ہیں کہ شیطان اذان سنتا ہے تو گوز مارتا ہوا بھاگ جاتاہے۔ یہ الفاظ صحیح مسلم میں سہیل بن ابی صالح سے مروی ہیں۔لیکن اس میں اصل روایت نہیں ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ''جب تمھیں جن بھوت ہراساں کریں تو اذان دیا کرو'' کے الفاظ سہیل راوی کے ہیں۔جسے عدی بن فضل نے مرفوع روایت کا حصہ بنا کر بیان کردیا ہے۔امام مسلم نے رحمۃ اللہ علیہ نے ایک قصہ بایں الفاظ نقل کیا ہے:'' حضرت سہیل کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے ایک ساتھی کے ہمراہ بنو حارثہ کی طرف روانہ کیا، گزرتے وقت ایک باغ کی چار دیواری کے اندر سے میرے ساتھی کا نام لے کر آواز دی گئی۔اس نے دیوار پر چڑھ کر دیکھا تو وہاں کوئی چیز نظر نہ آئی۔میں نے جب اس واقعہ کاذکر اپنے والد سے کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھے علم ہوتا کہ آپ کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش آسکتا ہے تو میں تجھے کسی صورت وہاں نہ بھیجتا ،آئندہ اگر اس طرح کی آواز آئے تو اذان دیا کرو۔کیونکہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان کرتے ہوئے سناہےجس کے الفاظ یہ ہیں''جب نماز کے لئے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے۔''(صحیح مسلم کتاب الصلوۃ)
واضح رہے کہ حدیث کے مطابق شیطان جس اذان سے بھاگتا ہے وہ نماز کے وقت دی جانے والی اذان ہے۔ نماز کے علاوہ مصائب وشدائد کے وقت اذان دینا ایک تابعی کااستنباط ہے۔بلاشبہ نماز کے لئے اذان دینا تو حدیث سے ثابت ہے لیکن اس کے علاوہ اذان دینے کا ثبوت صحیح احادیث سے ہونا چاہیے۔
سوال میں جن بھوت کو بھگانے کےلئے آیت الکرسی کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، بلاشبہ آیت الکرسی اس مقصد کے لئے تیر بہدف نسخہ ہے۔بلکہ یہ نسخہ شیطان لعین کا اپنا بتایا ہوا ہے۔جس کے صحیح ہونےپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر تصدیق ثبت کی ہے۔کتب حدیث میں ابوہریرہ، حضرت ابو درداء، حضرت ابو ایوب انصاری ، حضرت ابی بن کعب، حضرت ابو اسید انصاری اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کی اپنی آپ بیتی بیان ہوئی ہے کہ شیطان نے مختلف اوقات میں ان کا کچھ سامان اٹھا لیا اور پکڑا گیا، کافی منت وسماجت کے بعد یہ کہہ کر نجات ملی کہ تمھیں ایک نسخہ بتاتاہوں۔اس پر عمل کرنے سے شیاطین (جن بھوت وغیرہ) آپ کے پاس نہیں پھٹکیں گے۔ وہ یہ ہے کہ آیت الکرسی پڑھ لیا کرو۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ اس نے بات سچی کی ہے لیکن وہ خود جھوٹا ہے۔''ان تمام واقعات کی تفصیل صحیح بخاری، سنن ترمذی، مسند امام احمد ، مصنف ابن ابی شیبۃ ،سنن نسائی اور معجم الطبرانی میں دیکھی جاسکتی ہے۔مختصر یہ ہے کہ اگر جنگل میں یا ویرانے میں کوئی ایسا واقعہ پیش آجائے تو اذان کے بجائے آیت الکرسی پڑھی جائے یا نماز کے وقت اذان دی جائے ۔نماز کے بغیر اذان دیناکسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ، اگر ایسے موقع پر اکیلی عورت ہے تو ا س کے لئے یہ سفر کرنا ہی ناجائز ہے۔اگر کسی مجبوری کے وقت ایسا سفر کرنا ناگزیر ہو تو حادثہ پیش آنے کی صورت میں آیت الکرسی پڑھ سکتی ہے۔امید ہے کہ ایسا کرنے سے تمام جن بھوت بھاگ جائیں گے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب