سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(34) نمازوں کے اوقات

  • 11158
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 6364

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن وحدیث کی روشنی میں نمازوں کے اوقات کی وضاحت کریں۔(محمد ادریس رحیم یار خان)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نمازوں کو ان کے اوقات پرپورا ادا کرنا نہایت ضروری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' کہ نماز اس کے وقت کی پابندی کے ساتھ اہل ایمان پر فرض کی گئی ہے ۔'' (4/النساء :103)

اوقات نماز کے متعلق صحیح ترین روایت حسب ذیل ہے۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل  علیہ السلام  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اٹھیے اور نماز ادا کیجئے ،حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھلنے لگا، پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام بوقت عصرآئے اور کہا:اٹھیے اور نماز ادا کیجئے ،پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے نماز عصر اس وقت پڑھائی جب ہر ایک چیز کا سایہ ایک مثل تک ہوچکا تھا ،پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام مغر ب کے وقت آئے۔ اور کہا :اٹھئے نماز ادا کیجئے ،پھر حضرت جبرائیل  علیہ السلام نے نماز مغرب اس وقت پڑھائی جب کہ سورج غروب ہوچکا تھا ،پھر حضرت جبرائیل  علیہ السلام عشاء کے وقت آئے اور کہا:اٹھیے نماز ادا کیجئے ،پھر حضرت جبرائیل  علیہ السلام نے عشاء کی نماز اس وقت پڑھائی جب سرخی غائب ہوچکی تھی۔ پھر حضرت جبرائیل  علیہ السلام بوقت فجر آئے اور اس وقت نماز پڑھائی جب فجر طلوع ہوچکی تھی۔پھر اگلے دن ظہر کے لئے آئے اور کہا:اٹھیے نماز ادا کیجئے ،پھر نماز عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہوچکا تھا ،پھر مغرب کے لئے سورج کے غروب ہونے کے وقت ہی آئے، پھر عشاء کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب نصف یا تہائی رات گزر چکی تھی،اس وقت نماز عشاء پڑھائی۔ پھر حضرت جبرائیل  علیہ السلام اس وقت آئے جب فجر خوب روشن ہوچکی تھی۔ اور سفیدی پھیل چکی تھی ۔اس وقت جبرائیل  علیہ السلام نے نماز فجر پڑھائی اور کہا کہ ا ن دونوں اوقات کے درمیان نمازوں کا وقت ہے۔(مسند امام احمد 2/330)

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے  حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اوقات نماز ترین کے سلسلہ میں صحیح حدیث ہے۔(سنن ترمذی ،کتاب المواقیت)

اس حدیث سے درج ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں:

1۔نمازوں کے اوقات کا تعلق سور ج سے ہے۔

2۔ظہر کا وقت زوال آفتاب سے لے کرکسی چیز کا سایہ اس کے برابر ہونے تک ہے۔

3۔عصر کا وقت سایہ ایک مثل ہونے سے لے کر دوگنا ہونے تک ہے۔

4۔مغرب کا وقت تنگ اور محدود ہے سورج غروب ہونے پر ہے زیادہ سے زیادہ سرخی غائب ہونے تک ہے۔

5۔عشاء کا و قت سرخی غائب ہونے سے لے کر نصف یا تہائی رات تک ہے۔

6۔ نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے لے کر سورج نکلنے سے پیشتر سفیدی پوری طرح پھیل جانے تک ہے۔

جمعہ کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے ،نیز آپ جمعہ کی نماز سردیوں میں جلدی پڑھتے اور سخت گرمی میں دیر سے ادا کرتے۔ (صحیح بخاری:حدیث نمبر 906)

اوقات نماز کے متعلق مزید امور کا خیال رکھنا چاہیے۔

٭ ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:'' گرمی کے موسم میں نماز ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھا کرو۔''(صحیح بخاری :حدیث نمبر 538)

اب اس کو ٹھنڈا کرنے کی کیا حد ہے؟ اس میں اختلاف ہے،البتہ اس بات پر اتفاق ہے کہ اتنا بھی ٹھنڈا نہ کیا جائے کہ عصر کا وقت آجائے۔

٭۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز غروب شفق (سرخی) کے بعد پڑھاتے اگرلوگ جلد جمع ہوجاتے تو جلد پڑھا دیتے اور اگر دیر سے جمع ہوتے تو دیر سے پڑھاتے لیکن اس نماز میں تاخیر کو پسند کرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ نماز عشاء اس وقت پڑھائی جب رات کا کافی حصہ گزر چکا تھا ۔پھر فرمایا:''اگر میری امت پر  گراں نہ ہوتا تو عشاء کا اصل وقت تو یہی ہے۔''(صحیح بخاری :حدیث نمبر 57)

٭۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز اس وقت پڑھاتے جب کہ نماز سے فراغت کے بعد بھی اندھیرا ہوتا تھا ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ہم عورتیں چادر میں لپٹی ہوئی جب نماز سے فارغ ہوکرنکلتیں تو اندھیرے کی وجہ سے ایک دوسرے کو پہچان نہ سکتی تھی۔(صحیح بخاری :حدیث نمبر578)

٭۔نماز عیدین کا مسنون وقت سورج کے نیزہ بھر بلند ہونے پر ہے، یعنی طلوع آفتاب سے تقریباً  نصف گھنٹہ بعد شروع ہوجاتاہے۔ ضرورت کے پیش نظر اس میں تاخیر کی جاسکتی ہے۔

٭۔بعض فقہاء کے نزدیک زوال سے پہلے جمعہ جائز ہے۔لیکن یہ صحیح نہیں بلکہ جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہونا چاہیے۔

٭۔آج کل گھڑیوں کا دور ہے ،اس لئے گھنٹوں اور منٹوں کے اعتبار سے اوقات کی تعیین حسب ذیل ہے:

1۔نماز فجرکا آغاز تقریباً طلوع فجر سے بیس منٹ بعد اداکرناافضل ہے۔ واضح رہے کہ طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک تقریباً 30/ا گھنٹہ تک کا وقفہ ہوتا ہے۔

2۔نماز ظہر زوال آفتاب سے تقریباً بیس منٹ بعد اداکرنا افضل ہے لیکن سخت گرمی میں ایک گھنٹہ سے ڈیڑھ گھنٹہ تک تاخیر کی جاسکتی ہے۔

3۔نماز عصر موسم سرما میں غروب آفتاب سے دو گھنٹے اور موسم گرما میں اڑھائی گھنٹے قبل ادا کرنا افضل ہے۔

4۔نماز مغرب کا وقت بہت محدود ہے۔یہ غروب آفتاب کے بعد نصف گھنٹہ تک ہے۔

5۔عشاء کا وقت غروب شفق کے بعد شروع ہوتا ہے۔اور غروب شفق کا وقت غروب آفتاب سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ بعد تک ہوتا ہے۔اس لئے مغرب اور عشاء کی نماز میں کم از کم دو گھنٹے کا وقفہ ہونا چاہیے۔نمازعشاء میں اگر مزید تاخیر کی جاسکے تو بہتر ہے۔

(نوٹ۔نمازعشاء کے علاوہ تمام نمازیں اول وقت میں ادا کی جائیں کیونکہ ایسا کرنا رضائے الٰہی کا باعث ہے)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:74

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ