سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(22) ﷺ یا صلعم رکھنا

  • 11146
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 1221

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض کتب دینیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم یا صلعم لکھا ہوتا ہے۔اسی طرح کسی صحابی کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ کی علامت لکھی ہوتی ہے۔ اس قسم کی علامت اور اختصارکی کیا حیثیت ہے۔(حافظ محمد یونس ربانی، فیصل آباد خریداری نمبر 2924)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلامی آداب میں سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ محبت اور چاہت سے '' صلی اللہ علیہ وسلم ''لکھا جائے ،اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسمائے شریفہ کے ساتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہم تحریر کیاجائے، دیگر انبیاء کرام کے ساتھ علیہم السلام  اور متقدمین اسلاف کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ، زندہ اہل علم کے ساتھ اور برخورداران کے ساتھ سلمہ اللہ لکھاجائے۔ محدثین عظام نے وضاحت کی ہے کہ صلی اللہ علیہ وسلم یا رضی اللہ عنہ کا اختصار یا اس کی علامت نہ لکھی جائے اور نہ ہی باربار لکھے جانے سے کسی قسم کی اکتاہٹ پیدا ہونی چاہیے۔چنانچہ شارح صحیح مسلم علامہ نوووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں'' کاتب کو چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوۃ وتسلیم لکھنے کی پابندی کرے اور بار بار لکھنے میں کوئی اکتاہٹ محسوس نہ کرےجوشخص اس سے غفلت کرتا ہے و ہ گویا خیر کثیر سے محروم ہوگیا ،اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی کے ساتھ عزوجل جیسے الفاظ لکھے ،نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دیگراخیار امت کےلئے رضی اللہ عنہم جیسے الفاظ کا انتخاب کرے۔اس سلسلے میں رموزواشارات سے کام نہ لے بلکہ انہیں کامل طور پر لکھا جائے ۔''(شرح تقریب النووی :ص 291)

علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ عزیز وجلیل ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے عزوجل کے الفاظ نہ لکھے جائیں ،اسی طرح صلاۃ وسلام کے الفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے استعمال نہ کیے جائیں جیسا کہ امام نووی نے شرح مسلم میں وضاحت کی ہے۔''(تدریب الراوی :ص 293)

علامہ محمد جمال الدین قاسمی نے اپنی تالیف''قواعد التحدیث'' میں باقاعدہ آداب کا عنوان قائم کرکے بڑی تفصیل سے اس مسئلے کا حق اداکیا ہے۔(قواعد التحدیث :ص 237)

لہذا ہمیں اس سلسلہ میں سستی یا کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ ثواب وآداب کی نیت سے اللہ تعالیٰ عزوجل، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذکر خیر پرمذکورہ بالا آداب لکھنے کی پابندی کرنی چاہیے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی اصحاب الحدیث

جلد:1 صفحہ:62

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ