السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
منڈی راجو وال سے قاری عبدا لباسط قمر لکھتے ہیں کہ ہمیں درج ذیل دو مسائل کی وضاحت درکار ہے۔
1۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کس قوم کو بندر اور خنذیر بننے کا حکم دیا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم ہے یا کسی اور نبی کی قوم کے متعلق حکم دیا تھا ؟
2۔چیونٹی کو مارنے کے متعلق کیا حکم ہے بعض دفعہ کھانے وغیرہ پرچڑھ جاتی ہیں تو انہیں دھوپ میں ڈال دیا جاتا ہے، اس طرح وہ مرجاتی ہیں کیا ایساکرنا جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نمبر 1۔واضح رہے کہ اس قسم کے سوالات کا انسانی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ اس کے برعکس ہماری پالیسی یہ ہے کہ ایسے سوالات کا حل دریافت کیا جائے جس کا براہ راست تعلق ایک بندہ مومن کی عملی زندگی سے ہے۔اور سوال یوں ہونا چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کس جرم کی پاداش میں انہیں بندر اور خنذیر بنایاتھا تاکہ اس کے جواب کی روشنی میں انسان اپنے کردار پر نظر رکھے۔بہرحال جنھیں بندر اور خنذیر بنایاگیا تھا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے تھے۔چنانچہ بنی اسرائیل (یہود ) کے لئے قانون مقرر کیا گیا تھا کہ وہ ہفتے کے دن کو آرام سے عبادت کے لئے مخصوص رکھیں اور اس روز کسی قسم کا دنیاوی کام نہ کریں بلکہ انھیں سیروشکار کی بھی ممانعت تھی اس کے متعلق یہاں تک تاکیدی احکام تھےکہ جوشخص اس مقدس د ن کی حرمت پامال کرے گا وہ واجب القتل ہے لیکن جب ان پراخلاقی اور دینی انحطاط کا دورآیا تو انہوں نے اپنے آپ کو شرعی پابندیوں سے آزاد کرنے کے لئے بہت سے شرعی حیلے ایجاد کرلیے ۔ان میں سے کچھ لوگ سمندر کے کنارے پر آباد تھے جن کا کاروبار ہی سیر وشکار تھا ،انہوں نے پابندی کے باوجود اس کے لئے بہت سی راہیں کھول لیں اور اس طرح وہ علی الاعلان سبت کی بے حرمتی کرنے لگے، انہیں اس جرم کی پاداش میں بندر بنادیا گیا اور یہ اصحاب السبت کے نام سے مشہور ہیں۔
سورۃ اعراف میں ان کا تفصیلی تذکرہ ہے، مندرجہ ذیل قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ جنھیں بندر بنایا گیا تھا وہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم سے تھے۔
قرآن مجید میں یہود سے خطاب کرتے ہوئے ارشا دباری تعالی ہے کہ:'' پھر تمھیں اپنی قوم کے ان لوگوں کا قصہ تو معلوم ہے جنھوں نے سبت کا قانون توڑا تو ہم نے انہیں کہہ دیا کہ جاؤ ذلیل بندر بن جاؤ۔''(2/البقرۃ:65)
اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ مسخ ہوکر بندر بننے والے یہودی تھے۔
ایک دفعہ مدینہ کے یہودیوں نے ''السام علیکم'' کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی تو صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں جواب دیا۔بایں الفاظ کتب حدیث میں محفوظ ہے۔
''بندروں اور خنذیر وں سے تعلق والو! تم پر ہلاکت ہو 'اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہو۔''(مسند امام احمد 2/241)
اس حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جنھیں بندر اور خنذیر بنایا گیا تھا وہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو علامات قیامت بیان فرمائی ہیں وہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں ایک یہ ہے:
''مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میری امت کے کچھ لوگ اکل وشرب 'لھو ولعب اور فخر وغرور میں شب باشی کریں گے۔اللہ تعالیٰ انہیں بندر اور خنذیر بنادیں گے۔ان کا جرم یہ ہوگا:
(الف) اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء بالخصوص شراب کو اپنے لئے حلال سمجھیں گے۔
(ب)بازاری عورتوں اور رقاصاؤں سے تعلق رکھیں گے۔
(ج) سود خوری اور ریشم پوشی کو وطیرہ زندگی بنائیں گے۔
(د) آلات موسیقی کوبکثرت استعمال کریں گے۔(مسند امام احمد :5/329)
آج یہ جرائم بکثرت پائے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں بنی اسرائیل جیسی ذلت ورسوائی سے محفوظ رکھے۔آمین
2۔صورت مسئولہ میں جس طرح چیونٹیوں کو مارنے کا ذکر ہوا ہے شرعا ایسا کرنا جائز نہیں۔اگرچہ موذی چیز کو مارنے کی شرعاً اجازت ہے ۔بالخصوص چیونٹیوں کے متعلق حدیث میں ایک واقعہ بھی بیان ہوا کہ کسی نبی کو ایک چیونٹی نے کاٹ ڈالا تو انہوں نے بل کی تمام چیونٹیوں کو آگ لگادی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس پرایسی وحی بھیجی کہ تو نے صرف اس چیونٹی کو سزا کیوں نہ دی،جس نے تجھے کاٹا تھا۔(صحیح بخاری :کتاب الجہاد)
ممکن ہے کہ اس واقعہ سے چیونٹیوں کو آگ سے جلا دینے کا جواز کشید کیا جائے لیکن واضح رہے کہ گزشتہ امتوں کے واقعات ہمارے لئے اس وقت قابل حجت ہوتے ہیں جب کسی مسئلہ کے متعلق ہماری شریعت میں حکم امتناعی نہ آیا ہو، ہماری شریعت میں چیونٹی کو مارنا بالخصوص آگ میں جلانا دونوں بصراحت منع ہیں، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چارجانداروں کو قتل کرنے سے منع فرمایا:''چیونٹی ،شہد کی مکھی،ہدہد اور چڑیا۔''(سنن ابی داود ،کتاب لادب)
کیونکہ مذکورہ جاندار ایک ایذا رسانی کا باعث نہیں بنتے اگر کسی موقع پر ان کے ضرر کا اندیشہ ہو تو انہیں دھوپ میں پھینک کر بھسم کرنے کی بجائے انھیں بھگا دینا ہی کافی ہے۔پھر دھوپ میں ڈال کرختم کرنے اورآگ کے ذریعے جلادینے میں کوئی فرق نہیں ہے۔چیونٹیوں کو آگ سے جلادینا بھی منع ہے۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ سے گزرتے ہوئے چیونٹیوں کو دیکھا جنھیں آگ سے جلادیا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:''کہ انھیں کس نے جلایا ہے؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہم نے ایسا کیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' مناسب نہیں کہ آگ کے پروردگار کے علاوہ کوئی دوسرا آدمی کسی جاندار کو آگ سے جلائے۔''(سنن ابی داود کتاب الادب)
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم کھانے وغیرہ کو اچھی طرح محفوظ کریں اگر چیونٹیاں چڑھ جائیں تو انھیں جھاڑ دینا ہی کافی ہے، دھوپ میں ڈال کر انہیں ختم کرنا درست نہیں ۔(واللہ اعلم)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب