السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
چیچہ وطنی سے محمد صادق لکھتے ہیں کہ زید نامی ایک شخص کے قادیانی ماموں جرمنی میں رہتے ہیں۔اور دو چار سال بعد چند ماہ کےلئے پاکستان زید کی والدہ اور اس کے خاندان سے ملنے آتے ہیں ۔زید اور اس کا خاندان ان کے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھاتا ہے۔نیز زید اپنی والدہ کے ہمراہ جب ربوہ میں ان سے ملنے جاتے ہیں تو ان کے گھر سے کھانا وغیرہ کھاتے ہیں۔تحائف کا تبادلہ بھی ہوتا ہے۔اور غمی خوشی میں بھی ایک دوسرے کے شریک ہوتے ہیں۔ جب کوئی اعتراض کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف دعوت دین کےلئے ان سے میل جول رکھتے ہیں، اس صورت حال کے پیش نظر مندرجہ ذیل سوالات کا جواب قرآن وسنت کی روشنی میں درکا ر ہے۔
1۔مرزائیوں کےلیے دعوت طعام کا اہتمام کرنا اور ساتھ بیٹھ کر کھانا جائز ہے۔جبکہ مقصوددعوت دین ہو ،اگر گھر میں ان کے لئے علیحدہ برتنوں کا انتظام کردیا جائےتو شرعا کیسا ہے؟
2۔دعوت دین کےلئے ان سے میل جول رکھنا شرعا ً کیسا ہے؟
3۔مرزائیوں سے تحفے تحائف کا تبادلہ ان کے گھر سے کھانا اور ان کا ذبیحہ جائز ہے؟
4۔مرزائیوں سے تعلق رکھنے والے کی دعوت یا دعوت طعام میں شرکت کی جاسکتی ہے؟
5۔مرزائیوں کی غمی خوشی میں شریک ہونا جائز ہے؟
6۔اگر زید اپنے ماموں مرزائی سے قطع تعلقی کرتا ہے تو اس کی والدہ ناراض ہوجاتی ہے ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوالوں کے ترتیب وار جوابات سے قبل کچھ تمہیدی گزارشات پیش خدمت کرتے ہیں تاکہ جوابات سمجھنے میں آسانی ہو۔
واضح رہے کہ عقیدہ ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' لوگو! محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ہاں وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔''(33/الاحزاب :40)
اس آیت کا سیاق وسباق قطعی طور پر اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ یہاں خاتم النبیین کے معنی آخر النبیین کے ہیں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ختم کردینے والے ہیں۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ اس معنی کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات سے بھی ہوتی ہے، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:''پس میں آیا اور میں نے انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا۔''(صحیح مسلم)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔''(صحیح بخاری)
اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میں سب کے بعد آنے والا ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔''(ترمذی)
یہی وہ عقیدہ ختم نبوت ہےجس کا منکر مرتد اور واجب القتل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جن لوگوں نے بھی دعویٰ نبوت کیا ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے جنگ کی اور عقیدہ ختم نبوت پر آنچ نہ آنے دی ۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے کے لئے یہ مسئلہ توحید باری تعالیٰ کے ساتھ اس امر کا اقرار کرنا انتہائی ضروری ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ سلسلہ نبوت ختم ہوچکا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے آخری نبی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد کسی قسم کاتشریعی یا غیر تشریعی، ظلی یا بروزی کوئی نبی نہیں آسکتا۔نیز عقیدہ ختم نبوت ایمان کا ایک ایسا جزو ہے جس کے انکار سے ایمان ہی قائم نہیں رہتا ۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مدعیان نبوت کو دجال کذاب اور مفتری قرار دیا ہے۔انہی میں سے ایک مرز اغلام احمد قادیانی ہے۔ جس نے قرآن وحدیث کی صریح نصوص کے خلاف دعویٰ نبوت کیا، اس بنا پر مرزا قادیانی اور اس کے پیروکار دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔چونکہ یہ نص قطعی کی مخالفت کرتے ہیں۔لہذا یہ صرف کافر ہی نہیں بلکہ مرتد واجب القتل ہیں۔یہ ایسے مارآستین ہیں جوکلمہ کی آڑ میں لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ ان کی حمایت کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ان کے متعلق نرم گوشہ رکھنے والا اگر جہالت کی وجہ سے ایسا کرتا ہے تو کفر نہیں البتہ خطرہ ہے کہ حمایت کرتے کرتے کہیں ان کے ساتھ شامل نہ ہوجائے، لہذا ایسے آدمی کو اپنے متعلق نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ قرآن مجید نے شریعت اسلامیہ کے ساتھ مذاق کرنے والوں کی حمایت کرنے والوں کو تنبیہ کی ہے کہ اگر تم باز نہ آئے تو تم بھی ان جیسے ہو گے۔(4/النساء :140)
نیز یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ کفار کے ساتھ تعلقات کی تین اقسام ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے۔
دوستی اورقلبی تعلقات رکھنا یہ تو کسی حال میں درست نہیں ہیں۔قرآن کریم نے سختی سے روکا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''مومنو! کسی غیر (مسلم) کو اپنا راز داں نہ بناؤ۔''(3/آل عمران :118)
ظاہری طور پر خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سے پیش آنا ایسا کرنا رفع ضرر اور مصلحت دین کے پیش نظر جائز ہے۔ذاتی مفاد یا دنیوی منفعت کے لئے ایسا کرنا درست نہیں ہے۔
ضرورت مند پر احسان اور نفع رسانی کا اقدام یہ صرف ایسے کفار کے ساتھ کیا جاسکتا ہے جو اہل حرب نہ ہوں۔یعنی اسلام اور اہل اسلام کو نیچا دکھانے میں مصروف نہ ہوں۔ اگر مخالفت کرتے ہوئے میدان میں اتر آئیں اور اہل اسلام کو تکلیف دینے کے لئے منصوبہ سازی میں سر گرم عمل ہوں تو ایسے کفار کے ساتھ مواسات درست نہیں ہے۔ سورہ ممتحنہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کافر دشمن اور کافر غیر دشمن کو ایک ہی درجہ میں رکھنا درست نہیں بلکہ ان میں فرق رکھنا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خیر پسند لوگوں کے ساتھ خیر خواہانہ تعلقات کو جائز قرار دیا گیا ہے۔خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس تمہید کے بعد ان سوالات کا ترتیب وار جواب دیا جاتا ہے۔
بلاشبہ دعوت دین شریعت اسلام کا اہم فریضہ ہےجس کے کچھ اصول وضوابط ہیں اور آداب شرائط ہیں ۔سب سے بڑا ضابطہ یہ ہے کہ داعی صاحب علم ہو اور دعوت بھی علی وجہ البصیرت دی جائے،نیز دعوت دیتے وقت ایسا پر حکمت انداز اختیار کیا جائے جو دین اسلام کے شایان وشان ہو کہ دعوت دیتے وقت اسلام کا کوئی دوسرا ضابطہ مجروح نہ ہو، صورت مسئولہ میں زید کا ماموں دو چار سال بعد چند دنوں کے لئے اس کی والدہ سے ملنے آتا ہے تو زید ان کی ضیافت کرتا ہے۔ جب لوگوں کی طرف سے اعتراض ہوتے ہیں تو مہمان نوازی کو دعوت دین کا نام دے دیتا ہے۔ہمارے نزدیک یہ ایک چور دروازہ تلاش کیا گیا ہے جس کی آڑ میں رشتہ داری کو مستحکم کیا جاتا ہے۔جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل اس کے بالکل برعکس تھا ۔انہوں نے مسیلمہ کذاب اور اس کے پیروکار لوگوں سے کوئی رواداری نہیں کی، دعوت دین کا سلسلہ تو ہروقت رہنا جاری رہنا چاہیے نہ کہ دو چار سال بعد چند دنوں کے لئے جبکہ مرتدین (مرزائی) مہمان بن کر زید کے گھر اتر آ ئیں۔یہ تمام چیزیں ایک مسلمان کی دینی غیرت کے خلاف ہیں۔ان پر اتمام حجت ہوچکی ہےاور دعوت دین بھی انھیں مل چکی ہے۔ اب اس بات کی ضرورت ہے کہ انھیں احساس دلایا جائے کہ ہمارے ارتداد کی وجہ سے ہمارے رشتہ دار ہم سے نفرت کرتے ہیں۔ اور ہم سے دور رہتے ہیں جب کہ زید کے کردار میں یہ چیزیں تلاش کے باوجود نہیں ملتیں، ان کے لئے اپنے گھر میں مہمان نوازی کی خاطر علیحدہ برتنوں کے اہتمام سے بھی ایمانی غیرت کا احیاء نہیں ہوگا کیونکہ انہیں ضیافت کے ذریعے پورا پورا احترام مل گیا ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سے اعلان بیزاری کردیا جائے اور کھلانے پلانے کے تمام چور دروازوں کو بند کردیا جائے ،انہوں نے خود مسلمانوں کے ہاں اپنے احترام کو ختم کرلیا ہے تو ہمیں اس قدرتکلفات میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے، واضح رہے کہ ضیافت کا تعلق موالات سے ہے جس کی شریعت میں کفار سے اجازت نہیں ہے۔
اس کا جواب بھی سابقہ سطور میں دیا جاچکا ہے کہ اگر اس سے مراد گھر میں بلا کر مہمان نوازی کرنا ہے اور ان کی خوشی غمی میں شریک ہوناہے تو ایسا کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں، ایسے میل جول کے بغیر بھی دعوت دین کا فریضہ انجام دیا جاسکتاہے، مرزا قادیانی کے دجل وفریب کو واضح کیا جائے کہ وہ انگریز کا کاشت کردہ پودا تھا اور اس نے دعویٰ نبوت کرکے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی ہے، اس طرح ان پر مرزائیت کی حقیقت بے نقاب کی جائے اور یہ دعوت دین خط وکتابت کے ذریعے سر انجام دی جاسکتی ہے۔ بہرحال دعوت دین موسمی نہیں بلکہ ہر وقت جاری رہنی چاہیے لیکن اس کی آڑ میں تعلقات کی استواری جائز نہیں ہے۔
نبوت کے مدعیان نے ایک ایسا جرم کیا ہے جس کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان سے بچنے اور دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے، اس بنا پر مرزائیوں سے رشتہ ناطہ کرنا، ان کے گھر سے کھانا پینا اور ان کا ذبیحہ استعمال کرنا سب ناجائز اور حرام ہے۔فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:'' کہ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو مشتبہ چیزوں کی پیروی کرتے ہیں تو ایسے لوگوں سے دور رہو۔‘‘(صحیح بخاری)
اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کاتقاضا یہ ہے کہ مرزائیوں سے کسی قسم کا میل ملاپ نہ رکھا جائے اور نہ ہی ان کےگھر سے کھانا کھایا جائے، نیز یہ لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں، لہذا ان کے ذبیحہ کا کوئی اعتبار نہیں ،یاد رہے کہ انھیں اہل کتاب پر قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ لوگ دین اسلام قبول کرکے پھرمرتد ہوئے ہیں۔ جبکہ اہل کتاب نے سرے سے دین اسلام قبول ہی نہیں کیا ہوتا ،بہرحال ایمانی غیرت کا تقاضا یہی ہے کہ ان سے حتی المقدور اجتناب کیاجائے۔
بلاشبہ مرزائی دائرہ اسلام سے خارج اور ان کے ساتھ تعلقات رکھنے والا اگر جہالت کی وجہ سے ایسا کرتا ہے تو کفر نہیں اگر ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایساکرتا ہے تو جرم عظیم کا مرتکب ہے اندیشہ ہے کہ تعلق داری کا اس حد تک خیال رکھنے کی وجہ سے کہیں ان کے ساتھ شامل نہ ہوجائے ،لہذا دوسرے مسلمانوں کو چاہیے کہ اسے اچھے انداز سے سمجھائیں اور اسے قائل کریں، اگر وہ باز نہیں آتا تو ایسے انسان کی دعوت طعام اور دعوت افطار میں شرکت بہتر نہیں تاکہ اسے کچھ نصیحت حاصل ہو۔بالخصوص وہ لوگ جو معاشرہ میں اپنا اثر ورسوخ رکھتے ہیں انہیں تو اس طرح کی دعوت میں شرکت سے اجتناب کرنا چاہیے۔
سابقہ سطور میں اس بات کی وضاحت ہوچکی ہے جوشخص بظاہر احکام اسلام کا پابند ہے لیکن اسلام کےبنیادی اصولوں میں سے کسی ایک منکر ہے یا اس کے عقائد میں سے کسی ایک کی ایسی بے جاتاویل کرتا ہے۔ جس سے وہ عقیدہ ہی درہم برہم ہوجاتا ہے یا وہ شخص کسی ایسے امر کا دانستہ طور پر ارتکاب کرتا ہے جو اسلام کی نظر میں موجبات کفر سے ہے تو بلاشبہ ایساشخص دائرہ اسلام سے خارج اور واجب القتل ہے، جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے منکرین زکاۃ اورحامیان مسیلمہ کذاب کے ساتھ سلوک کیا تھا ،مرزا قادیانی اور اس کی ذریت بھی اسی سلوک کی حقدار ہے ،ان سے تعلقات رکھنے سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔لہذا ان کی غمی وخوشی میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔اور نہ ہی ایسا کرنا باغیرت مسلمان کے شایان شان ہے۔
والدین کی اطاعت ضروری ہے لیکن اس کی حد بندی یوں کی گئی ہے کہ ان کی اطاعت سے اسلام کا کوئی ضابطہ مجروح نہ ہو اگر والدین کی اطاعت کرنے سے اسلام کے کسی دوسرے ضابطہ پر حرف آتا ہو تووالدین کی اطاعت ترک کرکے اسلام کاتحفظ کرنا چاہیے، حدیث میں ہے کہ خالق کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے۔لہذا مرزائیوں سے قطع تعلقی کی صورت میں والدہ کی اطاعت کو قربان کیا جاسکتا ہے۔البتہ دنیاوی معاملات میں والدہ سے حسن سلوک اور اس کی خدمت کرتے رہنا چاہیے۔(واللہ اعلم بالصواب)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب